مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 49

گیت نمبر 147‏:‏ ہمیشہ کی زندگی کا وعدہ

آپ ہمیشہ تک زندہ کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

آپ ہمیشہ تک زندہ کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

‏”‏جو کوئی بیٹے کو قبول کرے اور اُس پر ایمان ظاہر کرے،‏ اُسے ہمیشہ کی زندگی ملے[‏گی]‏۔“‏‏—‏یوح 6:‏40‏۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

مسح‌شُدہ مسیحیوں اور مسیح کی اَور بھی بھیڑوں کو یسوع مسیح کی قربانی سے کیسے فائدہ ہوتا ہے۔‏

1.‏ کچھ لوگوں کو ہمیشہ تک زندہ رہنے کا خیال کیسا لگتا ہے؟‏

 بہت سے لوگ صحت‌مند رہنے اور لمبی عمر جینے کے لیے صحت‌بخش کھانا کھاتے ہیں اور ورزش کرتے ہیں۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ ہمیشہ تک زندہ نہیں رہ سکتے ہیں۔ اُن کی نظر میں تو ہمیشہ کی زندگی پانے کی اُمید کرنا ہی بے‌تُکی سی بات ہے اور وہ اِس کی اِتنی خواہش بھی نہیں رکھتے کیونکہ وہ بڑھاپے میں آنے والی پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن جیسے کہ یسوع مسیح نے یوحنا 3:‏16 اور 5:‏24 میں بتایا، اِنسانوں کے لیے ہمیشہ کی زندگی پانا ممکن ہے۔‏

2.‏ یوحنا 6 باب میں ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟ (‏یوحنا 6:‏39، 40‏)‏

2 ایک دن یسوع مسیح نے معجزہ کر کے ہزاروں لوگوں کو روٹی اور مچھلی کھلائی۔‏ a یہ بہت ہی حیران کر دینے والا معجزہ تھا۔ لیکن اِس معجزے کے اگلے دن یسوع نے لوگوں سے جو بات کہی، اُس نے لوگوں کو اَور بھی زیادہ حیران کر دیا۔ لوگ یسوع کا پیچھا کرتے کرتے کفرنحوم پہنچے۔ وہاں گلیل کی جھیل کے کنارے یسوع نے لوگوں کو بتایا کہ وہ مُردوں کو زندہ کریں گے اور اُنہیں ہمیشہ کی زندگی پانے کا موقع دیں گے۔ ‏(‏یوحنا 6:‏39، 40 کو پڑھیں۔)‏ ذرا اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے اُن دوستوں اور رشتے‌داروں کے بارے میں سوچیں جو فوت ہو گئے ہیں۔ یسوع کی بات سے پتہ چلتا ہے کہ فوت ہو جانے والے بہت سے لوگ زندہ ہو سکتے ہیں اور آپ اور آپ کے عزیز ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں!‏ لیکن یسوع نے یوحنا 6 باب میں آگے جو بات کہی، اُسے سمجھنا اُس وقت بھی بہت سے لوگوں کے لیے مشکل تھا اور آج بھی۔ آئیے دیکھیں کہ یسوع نے کیا کہا۔‏

3.‏ یسوع مسیح نے یوحنا 6:‏51 میں اپنے بارے میں کون سی بات بتائی؟‏

3 جن لوگوں نے معجزے کے ذریعے ملنے والی روٹی کھائی تھی، اُنہوں نے اُس من کے بارے میں سوچا جو یہوواہ اُن کے باپ دادا کو ویرانے میں دے رہا تھا۔ بائبل میں تو من کو ”‏آسمان سے روٹی“‏ کہا گیا ہے۔ (‏زبور 105:‏40؛‏ یوح 6:‏31‏)‏ تو یسوع نے اِن لوگوں کو من کی مثال دیتے ہوئے ایک بہت ہی اہم بات سکھائی۔ یسوع مسیح نے خود کو ”‏آسمان سے اصلی روٹی،“‏ وہ ’‏روٹی جو خدا دیتا ہے‘‏ اور ”‏زندگی کی روٹی“‏ کہا۔ (‏یوح 6:‏32، 33،‏ 35‏)‏ جب یسوع نے اپنا حوالہ روٹی کے طور پر دیا تو اُنہوں نے یہ اہم بات بتائی کہ اُن میں اور من میں فرق ہے۔ حالانکہ بنی‌اِسرائیل کو یہوواہ کی طرف سے من ملا تھا لیکن اِسے کھانے سے وہ ہمیشہ تک زندہ نہیں رہے؛ وہ آخرکار مر گئے۔ (‏یوح 6:‏49‏)‏ لیکن یسوع نے کہا:‏ ”‏مَیں وہ زندگی کی روٹی ہوں جو آسمان سے آئی ہے۔ اگر کوئی اِس روٹی کو کھائے گا تو وہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہے گا۔“‏ ‏(‏یوحنا 6:‏51 کو پڑھیں۔)‏ یہ سُن کر یہودی اُلجھن میں پڑ گئے۔ اُنہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یسوع خود کو وہ روٹی کیسے کہہ سکتے ہیں جو آسمان سے آئی ہے اور بھلا یہ روٹی اُس من سے کیسے بہتر ہو سکتی ہے جو یہوواہ نے اُن کے باپ‌دادا کو دیا تھا؟ پھر یسوع نے اُنہیں بتایا:‏ ”‏دراصل جو روٹی مَیں دوں گا، وہ میرا جسم ہے۔“‏ یسوع کی اِس بات کا کیا مطلب ہو سکتا تھا؟ ہمارے لیے اِس بات کو جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ اِس سے ہمیں اِس سوال کا جواب ملے گا کہ ہمارے اور ہمارے عزیزوں کے لیے ہمیشہ کی زندگی پانا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ تو آئیے دیکھتے ہیں کہ یسوع کی بات کا کیا مطلب تھا۔‏

زندگی کی روٹی اور یسوع کا گوشت

4.‏ کچھ لوگوں کو یسوع مسیح کی بات سُن کر دھچکا کیوں لگا؟‏

4 جو لوگ یسوع کی باتیں سُن رہے تھے، اُن میں سے کچھ کو یہ سُن کر بہت دھچکا لگا ہوگا کہ یسوع اُنہیں جو روٹی کھانے کے لیے کہہ رہے ہیں، وہ یسوع کا جسم ہے اور اِس سے ”‏دُنیا کو زندگی“‏ ملے گی۔ شاید اُنہیں لگا کہ یسوع سچ‌مچ اُنہیں اپنا جسم کھانے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ (‏یوح 6:‏52‏)‏ لیکن یسوع نے آگے جو کہا، اُسے سُن کر تو اُن لوگوں کو اَور بھی زیادہ دھچکا لگا۔ یسوع نے کہا:‏ ”‏جب تک آپ اِنسان کے بیٹے کا گوشت نہیں کھائیں گے اور اُس کا خون نہیں پئیں گے، آپ ہمیشہ کی زندگی نہیں پائیں گے۔“‏—‏یوح 6:‏53‏۔‏

5.‏ ہم یہ یقین سے کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یسوع مسیح یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ لوگوں کو سچ‌مچ اُن کا خون پینا ہوگا؟‏

5 نوح کے زمانے میں خدا نے اِنسانوں کو خون کھانے سے منع کِیا تھا۔ (‏پید 9:‏3، 4‏)‏ پھر جب یہوواہ نے بنی‌اِسرائیل کو شریعت دی تو اُس نے اُنہیں بھی خون کھانے سے منع کِیا۔ جو بھی اِسے کھاتا تھا، اُسے سزائے‌موت ملتی تھی۔ (‏احبا 7:‏27‏)‏ یسوع مسیح نے یہودیوں کو یہ تعلیم دی کہ وہ اُن سب حکموں کو مانیں جو یہوواہ نے اُنہیں شریعت میں دیے ہیں۔ (‏متی 5:‏17-‏19‏)‏ تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ یسوع یہودیوں کو سچ‌مچ اُن کا گوشت کھانے اور اُن کا خون پینے کو کہتے۔ مگر یہ انوکھی بات کہنے سے یسوع لوگوں کو کیا سکھانا چاہتے تھے؟ یہ کہ وہ لوگ ”‏ہمیشہ کی زندگی“‏کیسے پا سکتے ہیں۔—‏یوح 6:‏54‏۔‏

6.‏ ہمیں یسوع کے اِن الفاظ کو کس طرح سے سمجھنا چاہیے کہ ہمیں اُن کا گوشت کھانا ہوگا اور اُن کا خون پینا ہوگا؟‏

6 ظاہری بات ہے کہ یسوع مسیح مجازی معنوں میں بات کر رہے تھے۔ وہ ایک مثال دے کر لوگوں کو ایک بات سمجھانا چاہ رہے تھے بالکل اُسی طرح جس طرح اُنہوں نے کنوئیں پر سامری عورت کو ایک مثال دی تھی۔ یسوع نے اُس عورت سے کہا تھا:‏ ”‏جو شخص وہ پانی پیئے گا جو مَیں اُسے دوں گا، اُسے کبھی پیاس نہیں لگے گی بلکہ یہ پانی اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جس سے ہمیشہ کی زندگی کا پانی پھوٹے گا۔“‏ (‏یوح 4:‏7،‏ 14‏)‏ b بے‌شک یسوع مسیح سامری عورت سے یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ اُسے ہمیشہ کی زندگی پانے کے لیے ایک خاص کنوئیں سے سچ‌مچ کا پانی پینا ہوگا۔ اِسی طرح جب یسوع کفرنحوم میں لوگوں سے بات کر رہے تھے تو وہ یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ اُن لوگوں کو ہمیشہ تک زندہ رہنے کے لیے سچ‌مچ یسوع کا گوشت کھانا ہوگا اور اُن کا خون پینا ہوگا۔‏

دو واقعات میں فرق

7.‏ یسوع نے یوحنا 6:‏53 میں جو بات کہی، اُس کی بِنا پر کچھ لوگ کیا دعویٰ کرتے ہیں؟‏

7 کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ جب یسوع نے یوحنا 6:‏53 میں اُن کا گوشت کھانے اور اُن کا خون پینے کی بات کی تو اصل میں وہ یہ سمجھانا چاہ رہے تھے کہ لوگوں کو عشائے‌ربانی مناتے وقت کیا کرنے کی ضرورت ہے۔ اِن لوگوں کو ایسا اِس لیے لگتا ہے کیونکہ یسوع نے یادگاری تقریب کو قائم کرتے وقت بھی یوحنا 6:‏53 سے ملتے جلتے الفاظ کہے تھے۔ (‏متی 26:‏26-‏28‏)‏ اِن لوگوں کا ماننا ہے کہ جب عشائے‌ربانی مناتے وقت سامعین کے سامنے سے روٹی اور مے گزاری جاتی ہے تو ہر شخص کو ہی اِس میں سے کھانا پینا چاہیے۔ لیکن کیا ایسا کرنا درست ہے؟ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ لوگوں کا یہ دعویٰ درست ہے یا نہیں کیونکہ ہر سال لاکھوں لوگ اِس تقریب کو منانے کے لیے ہمارے ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ آئیے کچھ ایسی باتوں پر غور کرتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع نے یوحنا 6:‏53 میں جو بات کہی، وہ اُن کی اُس بات سے کتنی فرق تھی جو اُنہوں نے یادگاری تقریب قائم کرتے وقت کہی تھی۔‏

8.‏ یوحنا 6:‏53-‏56 میں لکھے واقعے اور مالک کی یادگاری تقریب والے واقعے میں کچھ فرق کیا ہیں؟ (‏تصویروں کو بھی دیکھیں۔)‏

8 آئیے اِن دو واقعات میں پائے جانے والے فرق پر غور کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو غور کریں کہ یسوع مسیح نے یوحنا 6:‏53-‏56 میں لکھی بات کب اور کہاں کہی تھی۔ یسوع نے یہ بات 32ء میں گلیل میں یہودیوں کی ایک بِھیڑ سے کہی تھی۔ یہ یروشلم میں مسیح کی یادگاری تقریب قائم کرنے سے تقریباً ایک سال پہلے کی بات تھی۔ پھر اِس بات پر بھی غور کریں کہ یسوع مسیح نے یوحنا 6:‏53-‏56 میں لکھی بات کن سے کہی تھی۔ اُنہوں نے یہ بات ایسے لوگوں سے کہی تھی جو یہوواہ اور اُس کی بادشاہت کے بارے میں سیکھنے سے زیادہ اپنا پیٹ بھرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ (‏یوح 6:‏26‏)‏ دراصل جب یسوع نے اِن لوگوں سے ایک ایسی بات کہی جسے سمجھنا اُن کو مشکل لگا تو وہ فوراً ہی یسوع پر اپنا ایمان کھو بیٹھے۔ اُن کے تو کچھ شاگردوں نے بھی اُن کی پیروی کرنا چھوڑ دی۔ (‏یوح 6:‏14،‏ 36،‏ 42،‏ 60،‏ 64،‏ 66‏)‏ اب ذرا اِس واقعے کا موازنہ اُس واقعے سے کریں جو اِس کے تقریباً ایک سال بعد 33ء میں ہوا یعنی اُس وقت جب یسوع نے اپنی موت کی یادگاری تقریب قائم کی۔ اُس موقعے پر اُن کے 11 رسول اُن کے ساتھ تھے۔ حالانکہ یہ رسول اُن سب باتوں کو پوری طرح سے نہیں سمجھ پائے تھے جو یسوع اُنہیں بتا رہے تھے لیکن وہ گلیل کے اُن زیادہ‌تر لوگوں کی طرح نہیں تھے۔ اِن رسولوں کو اِس بات کا پکا یقین تھا کہ یسوع خدا کے بیٹے ہیں جنہیں خدا نے آسمان سے زمین پر بھیجا ہے۔ (‏متی 16:‏16‏)‏ یسوع نے بھی اِس بات پر یقین کرنے کے لیے اپنے رسولوں کی تعریف کی اور اُن سے کہا:‏ ”‏آپ نے میری آزمائشوں میں میرا ساتھ دیا ہے۔“‏ (‏لُو 22:‏28‏)‏ صرف اِن دو فرق سے ہی یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یسوع نے یوحنا 6:‏53 میں جو بات کہی، وہ اُن کی یادگاری تقریب کی طرف اِشارہ نہیں کرتی۔ لیکن ایسے اَور بھی کئی ثبوت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دو واقعات فرق باتوں کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔‏

دائیں:‏ یوحنا 6 باب کے مطابق یسوع مسیح گلیل میں ہزاروں یہودیوں سے بات کر رہے ہیں۔ بائیں:‏ اِس کے ایک سال بعد یسوع مسیح یروشلم میں اپنے وفادار رسولوں سے بات کر رہے ہیں۔ (‏پیراگراف نمبر 8 کو دیکھیں۔)‏


یسوع کے الفاظ آپ کے لیے کیا اہمیت رکھتے ہیں؟‏

9.‏ یسوع مسیح نے یادگاری تقریب کو قائم کرتے وقت جو بات کہی، وہ کن پر پوری اُترتی ہے؟‏

9 جب یسوع مسیح نے یادگاری تقریب کا آغاز کِیا تو اُنہوں نے اپنے رسولوں کو بے‌خمیر روٹی دی اور اُن سے کہا کہ یہ اُن کے جسم کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔ پھر اُنہوں نے اپنے رسولوں کو مے دی اور اُن سے کہا کہ یہ ‏”‏عہد کے خون“‏ کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔ (‏مر 14:‏22-‏25؛‏ لُو 22:‏20؛‏ 1-‏کُر 11:‏24‏)‏ یسوع نے عہد کے حوالے سے جو بات کی، وہ بہت اہم ہے۔ یسوع نے اِسے ’‏نیا عہد‘‏ کہا۔ نیا عہد یہوواہ خدا اور ”‏[‏روحانی]‏اِسرائیل کے گھرانے“‏ کے بیچ باندھا گیا۔ ”‏اِسرائیل کے گھرانے“‏ میں صرف وہ لوگ شامل ہیں جو یسوع کے ساتھ ”‏خدا کی بادشاہت“‏ میں حکمرانی کریں گے۔ (‏عبر 8:‏6،‏ 10؛‏ 9:‏15‏)‏ رسول یہ بات اُس وقت نہیں سمجھے تھے۔ لیکن جلد ہی اُنہوں نے یہوواہ کی پاک روح سے مسح ہو جانا اور نئے عہد میں بندھ جانا تھا تاکہ وہ یسوع کے ساتھ آسمان پر رہ سکیں۔—‏یوح 14:‏2، 3‏۔‏

10.‏ یسوع نے یادگاری تقریب کو قائم کرتے وقت جو بات کہی اور جو بات کفرنحوم میں لوگوں سے کہی، اُس میں ایک اَور فرق کیا ہے؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

10 یسوع مسیح نے یادگاری تقریب کو قائم کرتے وقت جو بات کہی، وہ صرف ”‏چھوٹے گلّے“‏ کے لیے تھی۔ لوگوں کے اِس چھوٹے گروہ میں سب سے پہلے تو یسوع کے وفادار رسول شامل تھے جو اُس وقت اُس کمرے میں اُن کے ساتھ تھے۔ (‏لُو 12:‏32‏)‏ یہ وہ لوگ تھے جنہیں یسوع نے روٹی اور مے میں سے کھانے پینے کو کہا۔ اُن کے بعد جب اَور لوگ بھی اِس گروہ میں شامل ہوئے تو اُن سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ یادگاری تقریب مناتے وقت روٹی اور مے میں سے کھائیں پئیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں آسمان پر یسوع کے ساتھ جگہ ملے گی۔ یسوع نے اِس موقعے پر اپنے رسولوں سے جو بات کہی، وہ اُس بات سے بالکل فرق تھی جو اُنہوں نے گلیل میں لوگوں سے کہی تھی۔ اُنہوں نے گلیل میں جو بات کہی، وہ بے‌شمار لوگوں پر لاگو ہوتی ہے۔‏

جو لوگ یسوع مسیح کی موت کی یادگاری تقریب میں روٹی اور مے میں سے کھاتے پیتے ہیں، وہ ایک چھوٹے گروہ کا حصہ ہیں۔ لیکن یسوع پر ایمان ظاہر کرنے والے ہر شخص کو ہمیشہ کی زندگی مل سکتی ہے۔ (‏پیراگراف نمبر 10 کو دیکھیں۔)‏


11.‏ یسوع مسیح نے گلیل میں کیا کہا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کی بات کا اِشارہ چھوٹے گروہ کی طرف نہیں تھا؟‏

11 جب 32ء میں یسوع گلیل میں تھے تو وہ خاص طور پر اُن یہودیوں سے بات کر رہے تھے جو صرف اِس بات میں دلچسپی رکھتے تھے کہ یسوع اُنہیں کھانا کھلائیں۔ لیکن یسوع نے اُن کی توجہ ایک ایسی چیز پر دِلائی جو اصلی کھانے سے زیادہ فائدہ‌مند تھی۔ یہ ایسی چیز تھی جس سے اُنہیں ہمیشہ کی زندگی مل سکتی تھی۔ اِس چیز سے تو مستقبل میں مُردے بھی زندہ ہو سکتے ہیں اور ہمیشہ کی زندگی پا سکتے ہیں۔ اِس موقعے پر یسوع مسیح صرف چند لوگوں یا کسی خاص گروہ سے بات نہیں کر رہے تھے جیسے اُنہوں نے بعد میں یادگاری تقریب کے موقعے پر کی تھی۔ اِس کی بجائے گلیل میں لوگوں سے بات کرتے وقت یسوع اُن کی توجہ ایک ایسی برکت پر دِلا رہے تھے جو سب لوگوں کو مل سکتی تھی۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اگر کوئی اِس روٹی کو کھائے گا تو وہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہے گا۔ دراصل جو روٹی مَیں دوں گا، وہ میرا جسم ہے۔ اور مَیں اِسے دوں گا تاکہ دُنیا کو زندگی ملے۔“‏—‏یوح 6:‏51‏۔‏

12.‏ ہمیشہ کی زندگی پانے کے لیے کیا ضروری ہے؟‏

12 کیا یسوع مسیح یہ کہہ رہے تھے کہ اِنسانی تاریخ میں پیدا ہونے والے ہر شخص کو ہمیشہ کی زندگی ملے گی؟ نہیں بلکہ صرف اُن لوگوں کو جو ”‏اِس روٹی کو کھائے گا“‏ یعنی یسوع پر ایمان ظاہر کرے گا۔ مسیحی ہونے کا دعویٰ کرنے والے بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ نجات پانے کے لیے اُنہیں صرف ’‏یسوع پر ایمان لانا‘‏ ہوگا اور اُنہیں اپنا نجات‌دہندہ سمجھنا ہوگا۔ (‏یوح 6:‏29‏، اُردو ریوائزڈ ورشن‏)‏ لیکن یسوع کی باتیں سننے والے لوگوں میں سے کچھ شروع شروع میں اُن پر ایمان لائے تھے لیکن پھر بعد میں اُنہوں نے یسوع کی پیروی کرنا چھوڑ دی تھی۔ کیوں؟‏

13.‏ یسوع کا سچا شاگرد ہونے کا کیا مطلب ہے؟‏

13 یسوع نے جن لوگوں کو کھانا کھلایا تھا، اُن میں سے زیادہ‌تر لوگ تب تک یسوع کی پیروی کرنے کو تیار تھے جب تک وہ اُن کی خواہشیں پوری کرتے۔ وہ صرف اِس بات میں دلچسپی رکھتے تھے کہ اُنہیں یسوع کی طرف سے شفا اور مُفت کا کھانا ملے اور یسوع اُنہیں وہ تعلیم دیں جو اُن کے دل کو بھائے۔ لیکن یسوع زمین پر لوگوں کی خواہشوں کو پورا کرنے نہیں آئے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے لوگوں کو بتایا کہ اُن کا سچا شاگرد بننے کے لیے اُنہیں کیا کرنا ہوگا۔ اِن لوگوں کو یسوع کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے اُن کے پاس جانا تھا یعنی اُن کی تعلیمات کو قبول کرنا اور اِن پر عمل کرنا تھا۔—‏یوح 5:‏40؛‏ 6:‏44‏۔‏

14.‏ ہمیں یسوع کے گوشت اور خون سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟‏

14 یسوع مسیح نے لوگوں پر یہ بات واضح کی کہ اُنہیں ایمان ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ کس بات پر؟ اِس بات پر کہ یسوع کے گوشت اور خون سے اُنہیں نجات مل سکتی ہے جو وہ وقت آنے پر قربان کرنے والے تھے۔ اِس بات پر ایمان ظاہر کرنا اُس وقت بھی یہودیوں کے لیے ضروری تھا اور آج ہم سب کے لیے بھی۔ (‏یوح 6:‏40‏)‏ تو یوحنا 6:‏53 میں یسوع نے جو بات کہی، اُس کا مطلب ہے کہ ہمیں یسوع کے گوشت اور خون سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے فدیے پر ایمان ظاہر کرنا ہوگا۔ اِس برکت سے فائدہ اُٹھانا بے‌شمار لوگوں کے لیے ممکن ہے۔—‏اِفِس 1:‏7‏۔‏

15-‏16.‏ ہم نے یوحنا 6 باب سے کون سی اہم باتیں سیکھی ہیں؟‏

15 ہم نے یوحنا 6 باب سے بہت سی ایسی حوصلہ‌افزا باتیں سیکھی ہیں جنہیں جاننا ہمارے اور ہمارے عزیزوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ اِس باب میں ہم نے صاف طور پر دیکھا کہ یسوع کو لوگوں کی کتنی فکر ہے۔ جب وہ گلیل میں تھے تو اُنہوں نے لوگوں کو شفا دی، اُنہیں خدا کی بادشاہت کے بارے میں تعلیم دی اور اِس بات کا خیال رکھا کہ لوگ بھوکے نہ رہیں۔ (‏لُو 9:‏11؛‏ یوح 6:‏2،‏ 11، 12‏)‏ سب سے بڑھ کر اُنہوں نے لوگوں کو یہ اہم سچائی بتائی کہ وہ ”‏زندگی کی روٹی“‏ ہیں۔—‏یوح 6:‏35،‏ 48‏۔‏

16 یہ سچ ہے کہ جن لوگوں کو یسوع نے اپنی ”‏اَور بھی بھیڑیں“‏ کہا ہے، اُنہیں ہر سال یادگاری تقریب مناتے وقت روٹی اور مے میں سے نہیں کھانا پینا چاہیے۔ (‏یوح 10:‏16‏)‏ لیکن اُنہیں بھی یسوع مسیح کے گوشت اور خون سے فائدہ پہنچتا ہے۔ اُنہیں یسوع کے فدیے پر اور اِس فدیے کے ذریعے ملنے والی برکتوں پر ایمان ظاہر کرنے سے فائدہ پہنچتا ہے۔ (‏یوح 6:‏53‏)‏ لیکن جو لوگ روٹی اور مے میں سے کھاتے پیتے ہیں، وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ نئے عہد میں شامل ہیں اور آسمانی بادشاہت کے وارث ہیں۔ چاہے ہم مسح‌شُدہ مسیحی ہوں یا مسیح کی اَور بھی بھیڑیں، یوحنا 6 باب میں لکھی باتیں ہم سبھی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ اِس باب میں اِس بات کو نمایاں کِیا گیا ہے کہ ہمیں ہمیشہ کی زندگی پانے کے لیے فدیے پر مضبوط ایمان ظاہر کرنا چاہیے۔‏

گیت نمبر 150‏:‏ مخلصی کے لیے یہوواہ پر آس لگائیں

a یوحنا 6:‏5-‏35 پر پچھلے مضمون میں بات ہوئی ہے۔‏

b یسوع مسیح نے جس پانی کا ذکر کِیا، وہ یہوواہ کے اُن سب کاموں کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو اُس نے ہمارے لیے کیے اور ابھی بھی کر رہا ہے تاکہ ہم ہمیشہ کی زندگی پا سکیں۔‏