”اجنبیوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا نہ بھولیں“
”اجنبیوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا نہ بھولیں۔“—عبر 13:2، فٹنوٹ۔
1، 2. (الف) پردیس میں لوگوں کو کن مشکلات کا سامنا کرتا پڑتا ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ب) بائبل میں سچے مسیحیوں کو کیا نصیحت کی گئی ہے اور اِس سلسلے میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
تقریباً 30 سال پہلے کی بات ہے کہ اوسائے [1] ملک گھانا سے یورپ آئے۔ اُس وقت وہ یہوواہ کے گواہ نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں: ”جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ یہاں زیادہتر لوگوں کو میری کوئی پرواہ نہیں۔ یہاں کا موسم بھی میرے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں تھا۔ ائیرپورٹ سے نکل کر جب مَیں نے زندگی میں پہلی بار سردی کا مزہ چکھا تو مَیں رونے لگا۔“ چونکہ اوسائے کو وہاں کی زبان نہیں آتی تھی اِس لیے اُن کو ایک سال تک کوئی ڈھنگ کی ملازمت بھی نہیں ملی۔ اُن کو اپنے گھر والے بھی بہت یاد آتے تھے جو سب کے سب گھانا میں تھے۔
2 فرض کریں کہ آپ اوسائے کی جگہ ہیں۔ کیا آپ یہ نہیں چاہیں گے کہ لوگ آپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں؟ اور اگر آپ کنگڈم ہال میں جائیں تو کیا آپ یہ نہیں چاہیں گے کہ آپ کا گرمجوشی سے اِستقبال کِیا جائے اور آپ کے ساتھ تعصب نہ کِیا جائے؟ بائبل میں سچے مسیحیوں کو نصیحت کی گئی ہے عبر 13:2، فٹنوٹ) اِس لیے آئیں، اِن سوالوں پر غور کریں: یہوواہ اجنبیوں کے لیے کیسے احساسات رکھتا ہے؟ کیا ہمیں اجنبیوں کے بارے میں اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے؟ جب دوسری قوم کا کوئی شخص ہمارے اِجلاسوں پر آتا ہے تو ہم اُسے اپنائیت کا احساس کیسے دِلا سکتے ہیں؟
کہ ”اجنبیوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا نہ بھولیں۔“ (یہوواہ اجنبیوں کے لیے کیسے احساسات رکھتا ہے؟
3، 4. خروج 23:9 کے مطابق بنیاِسرائیل کو پردیسیوں سے کیسا سلوک کرنا تھا اور اِس کی کیا وجہ تھی؟
3 جب یہوواہ خدا بنیاِسرائیل کو مصر سے نکال لایا تو غیراِسرائیلیوں کی ایک بہت بڑی ملی جلی گروہ بھی اُن کے ساتھ گئی۔ اِس لیے یہوواہ نے شریعت میں غیراِسرائیلیوں کے تحفظ کے حوالے سے خاص حکم دیے۔ (خر 12:38، 49؛ 22:21) یہوواہ خدا جانتا تھا کہ پردیسیوں کی زندگی اکثر آسان نہیں ہوتی اِس لیے اُس نے اُن کی ضروریات پوری کرنے کا اِنتظام کِیا۔ مثال کے طور پر اُس نے اُنہیں فصل کی کٹائی کے وقت بالیں چُننے کا حق دیا۔—احبا 19:9، 10۔
4 یہوواہ خدا نے بنیاِسرائیل کو غیرملکیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا محض حکم نہیں دیا بلکہ اُن سے یہ بھی کہا کہ وہ اُس وقت کو نہ بھولیں جب وہ خود مصر میں پردیسی تھے۔ (خروج 23:9 کو پڑھیں۔) مصری تو شروع سے ہی اُن سے تعصب کرتے تھے، یہاں تک کہ کچھ عرصے بعد مصریوں نے اُن کو اپنا غلام بنا لیا۔ (پید 43:32؛ 46:34؛ خر 1:11-14) بنیاِسرائیل نے تجربہ کِیا تھا کہ پردیسیوں کی زندگی کتنی تلخ ہوتی ہے۔ اِس لیے یہوواہ خدا نے اُن سے کہا کہ وہ پردیسیوں کو ”دیسی کی مانند“ سمجھیں۔—احبا 19:33، 34۔
5. ہمیں کیا کرنا چاہیے تاکہ ہم پردیسیوں کے بارے میں یہوواہ جیسے احساسات رکھیں؟
5 یہوواہ خدا کبھی نہیں بدلتا۔ اُسے آج بھی اُن غیرملکیوں کا خیال ہے جو ہمارے اِجلاسوں پر آتے ہیں۔ (اِست 10:17-19؛ ملا 3:5، 6) ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اِن لوگوں کو طرح طرح کی مشکلوں کا سامنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر شاید اُنہیں مقامی زبان نہیں آتی یا اُن سے تعصب کِیا جاتا ہے۔ اگر ہم اُن کی مشکلوں کو ذہن میں رکھیں گے تو ہم اُن کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں گے اور اُن کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔—1-پطر 3:8۔
کیا ہمیں اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے؟
6، 7. ہم کیسے جانتے ہیں کہ پہلی صدی کے مسیحیوں نے اپنے دل سے تعصب کو نکال دیا تھا؟
6 پہلی صدی عیسوی میں یہودی قوم دوسری قوموں سے بہت تعصب کرتی تھی۔ لیکن مسیحیوں نے اپنے دل سے تعصب کو نکال دیا تھا۔ عیدِپنتِکُست 33ء کے موقعے پر یروشلیم میں رہنے والے مسیحیوں نے اُن غیرملکیوں کی بڑی مہماننوازی کی جو ابھی ابھی مسیحی بنے تھے۔ (اعما 2:5، 44-47) بےشک وہ ”اجنبیوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا“ سیکھ گئے تھے۔
7 لیکن پھر ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ یونانی بولنے والے یہودیوں نے شکایت کی کہ عبرانی بولنے والے یہودی کھانا تقسیم کرتے وقت اُن کی بیواؤں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ (اعما 6:1) رسولوں نے اِس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سات آدمیوں کو مقرر کِیا تاکہ سب کو اپنا اپنا حق ملے۔ اُنہوں نے ایسے آدمی چُنے جن کے یونانی نام تھے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ یونانی قوم سے تعلق رکھتے تھے اور رسولوں نے یونانی بولنے والی بیواؤں کے احساسات کا لحاظ کرنے کے لیے اِن آدمیوں کو چُنا تھا۔—اعما 6:2-6۔
8، 9. (الف) ہم اِس بات کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں کہ آیا ہمارے دل میں تعصب ہے یا نہیں؟ (ب) ہمیں اپنے دل سے کیا دُور کرنا چاہیے؟ (1-پطر 1:22)
8 ہمارا ماحول ہم پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ (روم 12:2) شاید ہمارے پڑوسی، ساتھی کارکُن یا ہمجماعت اُن لوگوں پر آوازے کسیں جن کا رنگ، طبقہ یا قوم اُن سے فرق ہے۔ کیا ہم اُن کی باتوں سے متاثر ہو رہے ہیں؟ اور اگر کوئی ہماری قوم کا مذاق اُڑائے یا ہماری قوم کی کسی خصوصیت پر طنز کرے تو ہم کیسا محسوس کرتے ہیں؟
9 شروع شروع میں پطرس رسول غیریہودیوں سے تعصب کرتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اِس غلط سوچ کو اپنے دل سے نکال دیا۔ (اعما 10:28، 34، 35؛ گل 2:11-14) اِسی طرح اگر ہمارے دل میں رتی برابر بھی تعصب یا نسلپرستی ہے تو ہمیں اِس کو نکالنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ (1-پطرس 1:22 کو پڑھیں۔) یاد رکھیں کہ ہم میں سے کوئی نجات پانے کا حقدار نہیں، چاہے ہم کسی بھی قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہم سب گُناہگار ہیں۔ (روم 3:9، 10، 21-24) تو پھر بھلا ہم خود کو دوسروں سے بہتر کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ (1-کُر 4:7) ہمیں پولُس رسول کی سوچ اپنانی چاہیے جنہوں نے مسحشُدہ مسیحیوں سے کہا: ”اب آپ اجنبی اور پردیسی نہیں رہے بلکہ . . . خدا کے گھرانے کے فرد ہیں۔“ (اِفس 2:19) نئی شخصیت کو پہننے کے لیے لازمی ہے کہ ہم اپنے دل سے ہر طرح کے تعصب کو دُور کریں۔—کُل 3:10، 11۔
ہم اجنبیوں کے ساتھ مہربانی سے کیسے پیش آ سکتے ہیں؟
10، 11. ہم کیسے جانتے ہیں کہ بوعز اجنبیوں کے متعلق یہوواہ کی سوچ رکھتے تھے؟
10 بوعز اجنبیوں کے متعلق یہوواہ کی سوچ رکھتے تھے۔ ایک دن جب فصل کی کٹائی ہو رہی تھی تو وہ اپنے کھیتوں پر آئے۔ وہاں اُنہوں نے ایک موآبی عورت کو دیکھا جو بڑی محنت سے کام کر رہی تھی۔ اِس عورت کا نام رُوت تھا۔ بوعز کو بتایا گیا کہ رُوت نے بالیں چُننے کی اِجازت مانگی تھی جو کہ حیرانی کی بات تھی کیونکہ شریعت کے مطابق یہ رُوت کا حق تھا۔ یہ سُن کر بوعز نے رُوت کو گٹھروں سے بالیں چُننے کی بھی اِجازت دے دی۔—رُوت 2:5-7، 15، 16 کو پڑھیں۔
11 بوعز نے رُوت کے لیے جو کچھ کِیا، اِس سے ظاہر ہو گیا کہ اُنہیں رُوت کا خیال تھا اور وہ جانتے تھے کہ پردیسی ہونے کی وجہ سے رُوت کو کن مشکلوں کا سامنا ہے۔ اُنہوں نے رُوت سے کہا کہ وہ اُن کی نوکرانیوں کے ساتھ ساتھ رہیں تاکہ کھیت میں کام کرنے والے مزدور اُنہیں تنگ نہ کریں۔ پھر بوعز نے رُوت کو پانی اور روٹی دی، بالکل جیسے وہ اپنے مزدوروں کو دیتے تھے۔ بوعز نے بڑے احترام سے رُوت سے بات کی اور اُنہیں دِلاسا دیا۔—رُوت 2:8-10، 13، 14۔
12. جب ہم اجنبیوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں تو اِس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
12 بوعز اُس محبت سے متاثر ہوئے جو رُوت نے اپنی ساس نعومی کے لیے ظاہر کی تھی۔ وہ اِس بات سے بھی بڑے متاثر ہوئے کہ رُوت یہوواہ خدا کے ’پَروں کے نیچے پناہ کے لیے آئی تھیں۔‘ جب بوعز رُوت کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے تو اصل میں وہ یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کر رہے تھے جو اجنبیوں سے محبت کرتا ہے۔ (رُوت 2:12، 20؛ امثا 19:17) اِسی طرح جب ہم ’ہر طرح کے لوگوں‘ کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں تو وہ یہوواہ خدا کی محبت کو محسوس کرتے ہیں اور سچائی کو پہچان جاتے ہیں۔—1-تیم 2:3، 4۔
13، 14. (الف) جب کوئی پردیسی ہمارے اِجلاسوں پر آتا ہے تو ہمیں اُس سے خوشی سے کیوں ملنا چاہیے؟ (ب) اگر آپ کو کسی اَور قوم کے لوگوں سے بات کرنا مشکل لگتا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟
13 ہم ایسے لوگوں کے ساتھ مہربانی سے کیسے پیش آ سکتے ہیں جو حال ہی میں ہمارے ملک آئے ہیں؟ جب وہ ہمارے اِجلاسوں پر آتے ہیں تو ہم اُن سے خوشی سے مل سکتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر شرمیلے ہوتے ہیں اور دوسروں سے بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی رنگت، قومیت یا مالی حیثیت کی وجہ سے خود کو دوسروں سے کمتر سمجھیں۔ اِس لیے ہمیں اُن سے باتچیت کرنے میں پہل کرنی چاہیے اور اُن کے حال احوال میں دلچسپی لینی چاہیے۔ ہم اُن کی زبان کے کچھ الفاظ بھی سیکھ سکتے ہیں تاکہ ہم اُن کو اُن کی زبان میں سلام کر سکیں۔ ہماری تنظیم نے دوسری زبانیں سیکھنے کے لیے ایک ایپ فراہم کی ہے۔ اگر یہ ایپ کسی ایسی زبان میں دستیاب ہے جو آپ کو آتی ہے تو آپ اِس کی مدد سے پردیسوں کی مادری زبان میں اُن کو سلام کرنا سیکھ سکتے ہیں۔—فِلپّیوں 2:3، 4 کو پڑھیں۔
14 اگر آپ کو کسی اَور قوم کے لوگوں سے بات کرنا مشکل لگتا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ شروع میں شاید آپ اُن کو اپنے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ باتچیت کے دوران آپ کو پتہ چلے کہ آپ میں اور اُن میں بہت سی باتیں ملتی جلتی ہیں اور وہ آپ سے اِتنے فرق نہیں جتنا کہ آپ نے سوچا تھا۔ آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ ہر قوم میں خوبیاں ہوتی ہیں۔
ہم پردیسیوں کو اپنائیت کا احساس کیسے دِلا سکتے ہیں؟
15. ہم اپنے اِجلاسوں پر آنے والے پردیسیوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
15 ہم اپنے اِجلاسوں پر آنے والے پردیسیوں کو اپنائیت کا احساس کیسے دِلا سکتے ہیں؟ یہ سوچیں کہ آپ ایک اجنبی ملک میں جا کر کیسا محسوس کرتے؟ اُن کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں جیسا آپ چاہتے کہ پردیس میں آپ کے ساتھ کِیا جائے۔ (متی 7:12) وہ آپ کے ملک کے طورطریقوں کے عادی ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اِس لیے اُن کے ساتھ صبر سے پیش آئیں۔ شروع شروع میں شاید آپ کو اُن کی سوچ اور ردِعمل عجیب لگے۔ لیکن اُن سے یہ توقع کرنے کی بجائے کہ وہ آپ کے ملک کے طورطریقے اپنائیں، اُنہیں ویسے ہی قبول کریں جیسے وہ ہیں۔—رومیوں 15:7 کو پڑھیں۔
16، 17. (الف) ہم پردیسیوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ (ب) ہم پردیسی بہن بھائیوں کی مشکلوں کو کم کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
16 اگر ہم اپنے اِجلاسوں پر آنے والے پردیسیوں کے ملک اور ثقافت کے بارے میں سیکھیں گے تو ہمیں اُن کے ساتھ باتچیت کرنا زیادہ آسان لگے گا۔ ہم خاندانی عبادت کے دوران اُن ملکوں کے بارے میں تحقیق کر سکتے ہیں جن کے لوگ ہمارے علاقے یا کلیسیا میں ہیں۔ ہم پردیسی بہن بھائیوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لیے اُنہیں اپنے گھر کھانے پر بھی بلا سکتے ہیں۔ اگر یہوواہ خدا نے سب قوموں پر ”ایمان کا دروازہ کھول دیا ہے“ تو کیا ہمیں اُن پردیسیوں کے لیے اپنے دروازے نہیں کھولنے چاہئیں ”جو ہمارے ہمایمان ہیں“؟—اعما 14:27؛ گل 6:10؛ ایو 31:32۔
امثا 3:27) مثال کے طور پر اگر اُنہیں زبان سیکھنے میں دِقت ہو رہی ہے تو شاید ہم اُن کی مدد کر سکتے ہیں۔ ہم اُن کو ایسے اِداروں کے بارے میں بھی بتا سکتے ہیں جو لوگوں کو گھر اور ملازمت دِلاتے ہیں۔
17 جب ہم پردیسی بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اُن کو نئے ماحول کے عادی ہونے میں کن مشکلوں کا سامنا ہے۔ ہماری چھوٹی سی چھوٹی مدد بھی اُن کی مشکل کم کر سکتی ہے۔ (18. پردیسی کس کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں؟
18 ظاہری بات ہے کہ پردیسی بہن بھائیوں کو بھی نئے ماحول میں ڈھلنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ اِس سلسلے میں رُوت نے بہت اچھی مثال قائم کی۔ اُنہوں نے اپنے نئے ملک کے طورطریقوں کا احترام کیا کیونکہ اُنہوں نے بالیں چُننے کی اِجازت مانگی۔ (رُوت 2:7) اُنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ”یہ تو میرا حق ہے۔ یہاں کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ میرا خیال رکھیں۔“ اِس کے علاوہ وہ اُس شفقت کے لیے شکرگزار تھیں جو دوسروں نے اُن کے لیے ظاہر کی۔ (رُوت 2:13) جب پردیسی، رُوت کی مثال پر عمل کرتے ہیں تو اِس کا زیادہ اِمکان ہے کہ اُن کے نئے ملک کے لوگ اُن کا احترام کریں۔
19. ہمیں پردیسیوں کا خیرمقدم کیوں کرنا چاہیے؟
19 ہم خوش ہیں کہ یہوواہ خدا اپنی عظیم رحمت ظاہر کرتے ہوئے سب قوموں کو خوشخبری سننے کا موقع دے رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کو شاید اپنے دیس میں بائبل کورس کرنے یا ہمارے اِجلاسوں پر آنے کا موقع نہ ملے۔ لیکن اب جبکہ اُن کو ہمارے ملک میں یہ موقع مل رہا ہے تو کیا ہمیں دل سے اُن کا خیرمقدم نہیں کرنا چاہیے؟ ہو سکتا ہے کہ ہم اُن کی مالی مدد نہ کر سکیں یا کسی اَور طریقے سے اُن کے کام نہ آ سکیں۔ لیکن ہم ایک کام ضرور کر سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم اُن کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں تاکہ اُنہیں احساس ہو کہ یہوواہ خدا اُن سے محبت کرتا ہے۔ اِس لیے آئیں، ”خدا کی مثال پر عمل کریں“ اور پردیسیوں کو دلوجان سے قبول کریں۔—اِفس 5:1، 2۔
^ [1] (پیراگراف 1) فرضی نام اِستعمال کِیا گیا ہے۔