مایوسی خوشی میں بدل گئی
مایوسی خوشی میں بدل گئی
از ونسنٹ گونزالز
جب پڑوسیوں نے سنا کہ مَیں نے خود کو چار گولیاں ماریں مگر پھر بھی زندہ بچ گیا تو وہ مجھے سُپرمین کہنے لگے۔ مگر دراصل مَیں سُپرمین نہیں تھا۔ آئیے مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ مَیں نے کیوں خودکشی کی کوشش کی تھی۔
مَیں سن ۱۹۵۱ میں گےاےکولو، ایکوڈور میں پیدا ہوا۔ یہاں غریب خاندانوں نے سمندر کے کنارے غیرقانونی طور پر گھر بنائے ہوئے تھے۔ میرے والدین نے بھی اپنے نو بچوں کے ساتھ اسی آبادی میں رہنا شروع کر دیا۔ دلدلی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں لوہے کی چادروں اور بانسوں سے گھر بنائے جاتے تھے۔ گھروں کو مضبوط بنانے کے لئے بانسوں کے ستون تیار کئے جاتے تھے۔ یہاں بجلی نہیں تھی۔ ہم کوئلوں کی انگیٹھی پر کھانا پکاتے تھے۔ پینے کا پانی لینے کے لئے ہمیں آدھے میل کا سفر کرنا پڑتا تھا۔
خاندان کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے میرے بہنبھائیوں نے چھوٹی عمر میں ہی نوکریاں شروع کر دیں۔ سولہ برس کی عمر میں سکول سے نکال دئے جانے کے بعد مَیں نے ایک فیکٹری میں نائب قاصد کا کام شروع کر دیا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ ملکر مَیں نے شرابنوشی اور بداخلاقی شروع کر دی۔ جب کبھی میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگتا تو مَیں چرچ جا کر فادر کے سامنے اعتراف کر لیتا۔ کسی بھی طرح سے میری مدد کرنے یا روحانی صلاحمشورہ دینے کی بجائے فادر ہمیشہ کہہ دیتا: ”بیٹا تم نے اچھا اعتراف کِیا ہے۔“ پس اسی طرح دن گزرتے گئے۔ ایک وقت آیا کہ گناہ کرنا اور پھر اعتراف کرنے کا سلسلہ مجھے بےمعنی لگنے لگا۔ لہٰذا مَیں نے چرچ جانا چھوڑ دیا۔ اسی دوران مجھے اپنے اردگرد ہونے والی معاشرتی ناانصافیاں بھی نظر آنے لگیں۔ غریبوں کی اکثریت سخت محنتمزدوری کرکے مشکل سے گزربسر کر رہی تھی جبکہ امیر عیش کی زندگی گزار رہے تھے۔ مجھے اپنا مستقبل تاریک اور زندگی بےمقصد لگنے لگی۔
پھر ایک دن مَیں نے دیکھا کہ میری چار بہنیں یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ کتابیں پڑھ رہی ہیں۔ مَیں نے بھی انہیں پڑھنا شروع کر دیا۔ کتاب سچائی جو باعثِابدی زندگی ہے مجھے بہت پسند آئی۔ اس میں بہت سے بائبل مضامین پر معقول دلائل کے ساتھ باتچیت کی گئی تھی۔ مَیں نے خود سے کہا، ’یہی سچائی ہے!‘ مگر جیساکہ مَیں نے اگلے ۱۵ سالوں میں دیکھا سچائی کے مطابق زندگی گزارنا بہت مشکل تھا۔
جب مَیں ۲۲ سال کا ہوا تو مَیں نے ایک بینک میں ملازمت شروع کر دی اور آہستہ آہستہ کاؤنٹر پر روپےپیسے کا لیندین شروع کر دیا۔ ایک دن میرے ساتھ کام کرنے والے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ وہ کیسے خفیہ طور پر بینک سے پیسے ”لیتا“ ہے اور پھر بعد میں یہ ”قرض“ لوٹا دیتا ہے۔ مَیں نے بھی ”قرض“ لینا شروع کر دیا۔ مگر ایک دن آیا کہ یہ قرض اتنا زیادہ ہو گیا کہ میرے لئے اپنے اس جرم کو چھپانا مشکل ہو گیا۔ جب مَیں نے محسوس کِیا کہ مَیں کبھی بھی یہ رقم ادا نہیں کر سکوں گا تو مجھ پر مایوسی چھا گئی۔ پس مَیں نے اعتراف کرنے اور پھر اس جرم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے خودکُشی کرنے کا فیصلہ کِیا۔
بینک کے نام ایک خط لکھنے کے بعد، مَیں نے چھوٹی سی پستول خریدی اور ساحل پر ایک سنسان جگہ چلا گیا۔ وہاں جاکر مَیں نے دو گولیاں اپنے سر میں اور دو گولیاں اپنے سینے میں ماریں۔ مَیں بہت زیادہ زخمی ہونے کے باوجود بچ گیا۔ ہوا یوں کہ پاس سے گزرنے والے ایک سائیکل سوار نے مجھے دیکھا تو فوراً ہسپتال پہنچا دیا۔ جونہی میری حالت بہتر ہوئی تو مجھ سے غبن کے سلسلے میں پوچھگچھ کی گئی اور پھر جیل بھیج دیا گیا۔ جیل سے
رِہا ہونے کے بعد مَیں ایک مجرم کے طور پر بہت زیادہ مایوسی اور شرمندگی محسوس کرنے لگا۔ اب کیونکہ مَیں چار گولیاں لگنے کے باوجود بچ گیا تھا اس لئے پڑوسیوں نے مجھے سُپرمین کہنا شروع کر دیا۔تبدیلی لانے کا موقع
اسی دوران، یہوواہ کے گواہوں کا ایک مشنری پال سینچز میرے پاس آیا۔ پہلی بات جو مَیں نے نوٹ کی وہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ پال ایک بہت ہی خوشطبیعت اور مثبت سوچ رکھنے والا انسان تھا۔ مَیں نے بائبل سکھانے کی اُس کی دعوت قبول کر لی۔ مَیں نے سوچا ’شاید وہ مجھے خوشی اور زندگی کا مقصد تلاش کرنے میں مدد دینے کے قابل ہو۔‘
پال کی مدد سے مَیں نے سیکھ لیا کہ خدا نے انسانوں کو ایک مقصد کے تحت پیدا کِیا ہے۔ جو لوگ خدا سے محبت رکھتے اور اُس کے حکموں کو مانتے ہیں وہ مستقبل میں زمین پر فردوس میں زندہ رہیں گے۔ (زبور ۳۷:۲۹) مَیں نے یہ بھی سیکھ لیا کہ ناانصافی اور غربت خدا کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کے خلاف انسان کے بغاوت کرنے کا نتیجہ ہیں۔ (استثنا ۳۲:۴، ۵) ان سچائیوں نے میری تاریکی میں ڈوبی زندگی کو روشنی بخشی۔ تاہم، یہ ماننا پڑے گا کہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانا بائبل سیکھنے سے زیادہ مشکل کام تھا۔
مجھے ایک دفتر میں ملازمت مل گئی جہاں مَیں نے کمپنی کے فنڈز کا خیال رکھنا تھا۔ ایک بار پھر مَیں چوری کرنے کی آزمائش میں پڑ گیا۔ جب میرے لئے اپنی چوری کو چھپانا مشکل ہو گیا تو مَیں تقریباً ایک سال کے لئے ایکوڈور کے ایک دوسرے شہر کو بھاگ گیا۔ پھر مَیں نے مُلک سے باہر جانے کی کوشش کی مگر یہ بیکار ثابت ہوئی۔ پس مَیں واپس اپنے گھر آ گیا۔
پال نے مجھے دوبارہ ڈھونڈ لیا اور ایک بار پھر بائبل سکھانا شروع کر دی۔ اس مرتبہ مَیں نے بائبل کے اُصولوں پر عمل کرنے اور یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا عزم کِیا۔ یہی سوچ کر مَیں نے پال کو بتا دیا کہ مَیں نے کیسے بددیانتی کی ہے۔ اُس نے مجھے بڑے واضح الفاظ میں نصیحت کرتے ہوئے بائبل سے افسیوں ۴:۲۸ کا حوالہ پڑھا جہاں لکھا ہے: ”چوری کرنے والا پھر چوری نہ کرے بلکہ اچھا پیشہ اختیار کرکے ہاتھوں سے محنت کرے۔“ مجھے سمجھ آ گئی کہ اب مجھے اپنے جرم کا اقرار کرنا اور اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔
اپنی اسی حالت کی بابت پریشانی کے عالم میں، مَیں نے ایک آرٹسٹ کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ ایک دن ایک شخص میرے سٹوڈیو میں آیا اور میری تصاویر میں بہت دلچسپی دکھائی۔ پھر اُس نے مجھے بتایا کہ وہ خفیہ پولیس کا آدمی ہے اور اس کے پاس میری گرفتاری کے وارنٹ ہیں۔ پس ایک بار پھر مجھے کورٹکچہری کے چکر لگانے پڑے اور آخرکار جیل جانا پڑا۔ جب پال میرے پاس جیل میں ملاقات کے لئے آیا تو مَیں نے اُس سے وعدہ کِیا کہ ”مجھے بائبل سکھانے میں آپ نے جو محنت کی ہے وہ کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔“ پس، مَیں نے جیل میں بھی اُس سے بائبل سیکھنا جاری رکھا۔
مَیں نے وعدہ پورا کر دکھایا
جب مَیں جیل سے رِہا ہوا تو مَیں نے عہد کِیا کہ اپنے پورے دل سے یہوواہ کی خدمت کروں گا۔ مَیں نے اگلے دو سالوں میں اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ مَیں نے سن ۱۹۸۸ میں یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لیا۔ اب مزید وقت ضائع نہ کرنے کے عزم کے ساتھ مَیں نے پائنیر کے طور پر منادی کا کام شروع کر دیا۔ مَیں نے خاص طور پر اُن نوجوانوں کے پاس جانے کی کوشش کی جو جرائمپیشہ گروہوں سے تعلق رکھتے تھے۔
ایک گینگ کے لڑکے اکثر کنگڈم ہال کی دیوار پر اُلٹیسیدھی باتیں لکھ دیا کرتے تھے۔ کیونکہ مَیں ان لڑکوں سے واقف تھا اور یہ جانتا تھا کہ وہ کہاں مل سکتے ہیں۔ لہٰذا مَیں اُن کے پاس گیا۔ اُنہیں کنگڈم ہال کے مقصد کے بارے میں بتایا اور یہ درخواست کی کہ وہ اس کا احترام کریں۔ اس کے بعد کسی نے کنگڈم ہال کی دیوار پر لکھنے کی جرأت نہ کی۔
بعد میں جب ایک مرتبہ ہم کنگڈم ہال کو نئے سرے سے رنگروغن کرنے کے لئے دیواریں کھرچ رہے تھے تو ایک نئے گواہ فرنانڈو نے دیوار پر ”مینڈک“ لکھا ہوا دیکھا۔ اُس نے کہا: ”یہ تو مَیں نے لکھا تھا۔“ جب فرنانڈو ایک گینگ کا حصہ تھا تو اُس نے دیوار پر اپنا نام فرنانڈو عرف مینڈک لکھ دیا تھا۔ کیونکہ گینگ کے لڑکے اُسے مینڈک یا فراگ کہہ کر چھیڑتے تھے۔ عجیب اتفاق تھا کہ اب وہ خود ہی اسے مٹا رہا تھا!
جب مَیں پہلی مرتبہ فرنانڈو سے ملا تو وہ بہت زیادہ نشہ کرتا تھا۔ اُس کی ماں نے اُس کی عادت چھڑانے کے لئے اُسے ایک ادارے میں بھی بھیجا مگر اس کا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ پس وہ اُسے گھر میں اکیلا چھوڑ کر وہاں سے چلی گئی۔ اپنا نشہ پورا کرنے کے لئے فرنانڈو نے گھر کی ہر قیمتی چیز بیچ ڈالی۔ اُس نے تو گھر کے کھڑکیاں، دروازے اور چھت تک بیچ دی۔ ایک دن جب وہ مجھے گلی میں ملا تو مَیں نے اُسے جوس پلوایا اور بائبل کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کہا۔ اُس نے میری بات مان لی اور اُس وقت میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب اُس نے بائبل تعلیم پر عمل کرنا بھی شروع کر دیا۔ اُس نے گینگ کو چھوڑ دیا اور نشہ کرنا بھی بند کر دیا۔ مسیحی عبادت کے پروگراموں پر آنے لگا اور بہت جلد بپتسمہ لے لیا۔
جب مَیں اور فرنانڈو اکٹھے گھر گھر منادی کے لئے جاتے تو لوگ ہمیں پہچان کر ”مینڈک“ اور ”سُپرمین“ کہہ کر آوازیں دینے لگتے۔ پھر پوچھتے آجکل کیا کر رہے ہو۔ اُنہیں یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی تھی کہ ایک گینگ کا لڑکا اور ایک پُرانا چور اب بائبلیں ہاتھوں میں لئے اُن کے پاس آئے ہیں۔
ایک مرتبہ مَیں ایک شخص کو منادی کر رہا تھا اور فرنانڈو اُس کے پڑوسی سے بات کر رہا تھا۔ فرنانڈو کی طرف اشارہ کرکے اُس شخص نے مجھ سے کہا: ”اُس لڑکے کو دیکھ رہے ہو۔ ایک دفعہ اس نے مجھ پر بندوق تانی تھی۔“ مَیں نے اُس شخص کو یقین دلایا کہ اب فرنانڈو بدل چکا ہے اور بائبل اُصولوں کے مطابق زندگی گزار رہا ہے۔ جب فرنانڈو نے بات ختم کر لی تو مَیں نے اُسے بلا کر اُس شخص سے ملوایا۔ وہ کہنے لگا: ”شاباش نوجوان، تم نے اپنی زندگی میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔“
مَیں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ کتنی دفعہ لوگوں نے فرنانڈو اور میری بابت ایسے تعریفی کلمات کہے۔ یہ بڑی اچھی گواہی دینے کا باعث بنے اور اسی وجہ سے بہت سے لوگوں نے ہم سے بائبل سیکھنا شروع کر دی۔ جیہاں، مَیں اور فرنانڈو دونوں یہوواہ کا گواہ ہونے پر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔
میری زندگی کا ایک اہم واقعہ
سن ۲۰۰۱ میں، جب مَیں پچاس سال کا تھا تو مجھے یہ سن کر بہت حیرت اور خوشی ہوئی کہ مجھے پیرو میں منسٹریل ٹریننگ سکول میں حاضر ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ سکول پختہ گواہ بھائیوں کو آٹھ ہفتے کے لئے روحانی تعلیم فراہم کرتا ہے۔ جس کا مقصد منادی میں اُن کی مدد کرنا ہے۔
سوائے عوامی مقرر کی تربیت کے سکول میں جوکچھ بھی کرایا گیا وہ سب میرے لئے انتہائی دلچسپ تھا۔ مجھ سے چھوٹے طالبعلم بہت اچھی تقاریر پیش کرتے اور انتہائی پُراعتماد نظر آتے تھے۔ مگر جب مَیں اپنی پہلی تقریر پیش کرنے کے لئے کھڑا ہوا تو احساسِمحرومی نے مجھے آ دبایا۔ مَیں بچپن سے ہی اس کا شکار تھا۔ میرے گھٹنے کانپنے لگے، ہاتھ پسینے سے بھیگ گئے اور میری آواز کپکپانے لگی۔ تاہم، یہوواہ کی پاک روح اور شفیق بھائیوں نے مجھے سنبھالے رکھا۔ ایک اُستاد نے تو مجھ میں ذاتی دلچسپی لی اور مجھے کلاس کے بعد تقریریں تیار کرنے میں مدد دی۔ سب سے بڑھکر انہوں نے مجھے یہوواہ پر بھروسا کرنا سکھایا۔ جب کورس مکمل ہو گیا تو اپنی زندگی میں پہلی بار مجھے سامعین کے سامنے اچھی تقریر پیش کرکے حقیقی خوشی محسوس ہوئی۔
میرے اعتماد کا سب سے بڑا امتحان گےاےکولو میں یہوواہ کے گواہوں کی کنونشن پر تھا۔ مجھے ۰۰۰،۲۵ لوگوں کے سامنے یہ بتانا تھا کہ مَیں کیسے یہوواہ کا گواہ بنا۔ اتنے زیادہ لوگوں کے سامنے بات کرنے سے مَیں بہت جذباتی ہو گیا اور میری آواز بھرا گئی۔ بعدازاں، کنونشن پر آنے والے بہنبھائی میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا: ”بھائی گونزالز جب آپ اپنا تجربہ بیان کر رہے تھے تو سامعین میں سے کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اشکبار نہ ہو۔“ مَیں چاہتا تھا کہ میری کہانی ایسے لوگوں کے لئے تسلی اور حوصلہافزائی کا باعث ہو جو اپنی پُرانی زندگی کو بدلنا مشکل پا رہے ہیں۔
اِس وقت مَیں ایک کلیسیائی نگہبان اور کُلوقتی مناد کے طور پر خدمت انجام دے رہا ہوں اور مجھے ۱۶ لوگوں کو یہوواہ کے گواہ بننے میں مدد دینے کا شرف حاصل ہے۔ مَیں خوش ہوں کہ میرے والدین اور چار بہنیں بھی یہوواہ کی گواہ ہیں۔ میری والدہ نے ۲۰۰۱ میں وفاداری کی حالت میں وفات پائی۔ میرے پاس یہوواہ خدا کا شکر ادا کرنے کے لئے الفاظ نہیں کہ اُس نے مجھے اپنی بابت جاننے کا موقع دیا۔ میرے خیال میں قدردانی ظاہر کرنے کا اس سے بہتر اَور کوئی طریقہ نہیں کہ مَیں دوسرے لوگوں کو خدا کی جانب راغب کروں۔—یعقوب ۴:۸۔
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
فرنانڈو، دی فراگ یعنی مینڈک، ایک گینگ کا رکن جس کی مَیں نے مدد کی تھی
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
پال سینچز، مشنری جس نے مجھے بائبل کی تعلیم دی
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
ونسنٹ گونزالز کی حالیہ تصویر