اپنے بچوں کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کریں
ہدایت نمبر۶
اپنے بچوں کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کریں
اس ہدایت پر عمل کرنے کی اہمیت۔ بچے چاہتے ہیں کہ اُن کے والدین اُن کے دل کے حال کو سمجھیں۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب بچے والدین کو اپنے دل کی باتیں بتاتے ہیں تو والدین اُن کو جھڑک دیتے ہیں۔ ایسا کرنے کے نتیجے میں بچے والدین سے دُور ہو جاتے ہیں اور اُن سے دل کی باتیں کہنے سے ہچکچانے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کا اعتماد کچلا جاتا ہے اور وہ خود کو کسی کام کے لائق نہیں سمجھتے۔
اس ہدایت پر عمل کرنا مشکل کیوں ہے؟ بچے اپنے دل کی باتوں کا اظہار کرتے وقت اکثر جذباتی ہو جاتے ہیں۔ کبھیکبھار تو وہ ایسی باتیں بھی کہہ دیتے ہیں جو اُن کے والدین کو ناگوار گزرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بچہ جذباتی ہو کر کہتا ہے کہ ”مَیں مرنا چاہتا ہوں۔“ * اس پر والدین شاید اُسے یوں ٹوک دیں کہ ”ایسی بےتکی باتیں مت کرو۔“ کئی والدین کا خیال ہے کہ اگر وہ اپنے بچے کو ٹوکے بغیر ایسی باتیں کرنے دیں گے تو بچہ سوچنے لگے گا کہ وہ اُس کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔
آپ اس ہدایت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ پاک صحائف کے اس اصول پر عمل کریں: ”ہر آدمی سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا اور قہر کرنے میں دھیما ہو۔“ (یعقوب ۱:۱۹) خدا کے کئی نبیوں نے بھی اپنی بیزاری کا ذکر کِیا اور یہوواہ خدا نے اُن کی ان باتوں کو اپنے کلام میں لکھوایا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا اُن کے خیالات اور جذبات کو بخوبی سمجھتا تھا۔ (پیدایش ۲۷:۴۶؛ زبور ۷۳:۱۲، ۱۳) مثال کے طور پر جب ایوب پر طرح طرح کی مصیبتیں گزریں تو وہ مرنا چاہتا تھا۔—ایوب ۱۴:۱۳۔
یہ بات سچ ہے کہ ایوب کے کئی خیالات درست نہ تھے۔ لیکن یہوواہ خدا نے اُس سے یہ نہیں کہا کہ ”ایسی سوچ مت رکھ“ یا پھر کہ ”ایسی باتیں مت کر۔“ اس کی بجائے خدا نے ایوب کو موقع دیا کہ وہ کُھل کر اپنے دل کا حال بیان کرے۔ اس کے بعد ہی خدا نے بڑی شفقت سے اُس کی اصلاح کی۔ ایک مسیحی جس کے بچے ہیں وہ کہتا ہے کہ ”یہوواہ خدا مجھے اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مَیں دُعا میں اُسے اپنے دل کا حال بتاؤں۔ تو پھر مجھے بھی اپنے بچوں کو اس بات کی اجازت دینی چاہئے کہ وہ مجھے اپنے تمام خیالات بتائیں چاہے یہ خیالات غلط ہی کیوں نہ ہوں۔“
اگلی بار جب آپ کا بچہ جذباتی ہو کر کوئی غلط بات کہہ دے تو یہ کہہ کر اُسے چپ نہ کرا دیں: ”ایسی اُلٹیسیدھی باتیں مت کِیا کرو۔“ یاد رکھیں کہ یسوع مسیح نے کہا تھا: ”جیسا تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تُم بھی اُن کے ساتھ ویسا ہی کرو۔“ (لوقا ۶:۳۱) اپنے بچوں کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ذرا تصور کریں کہ نوکری پر آپ سے کوئی سختی سے بات کرتا ہے یا پھر آپ کو کسی ایسی غلطی کی وجہ سے ڈانٹا جاتا ہے جو آپ سے ہو گئی ہے۔ آپ اس وجہ سے بہت ہی پریشان ہیں اور اپنے کسی اچھے دوست سے کہتے ہیں کہ ”مجھ سے یہ نوکری نہیں کی جاتی۔“ آپ اپنے دوست سے کس بات کی توقع کرتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ سے کہے ”ایسی اُلٹیسیدھی باتیں مت کِیا کرو؟“ یا پھر کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کو اس بات کا احساس دلائے کہ یہ مصیبت آپ کی اپنی غلطی کی وجہ سے آن پڑی ہے؟ اس کی بجائے کیا آپ یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ آپ سے ہمدردی بھرے لہجے میں کہے: ”یہ تمہارے لئے واقعی بہت ہی مشکل رہا ہوگا۔ مَیں تمہارے اس دُکھ کو سمجھتا ہوں۔“
اگر آپ اپنے بچوں کو یہ احساس دلائینگے کہ آپ اُنکی پریشانیوں اور اُنکے دُکھدرد کو سمجھتے ہیں تو وہ آپکی اصلاح کو دل سے قبول کرینگے۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”دانا کا دل اُسکے مُنہ کی تربیت کرتا ہے اور اُسکے لبوں کو علم بخشتا ہے۔“—امثال ۱۶:۲۳۔
آپ اَور کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ کے بچے آپ کی اصلاح پر کان لگانے کو تیار ہوں؟
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 4 اگر آپ کا بچہ خودکشی کرنے کے بارے میں بات کرتا ہے تو اسے مذاق سمجھ کر نظرانداز نہ کریں۔
[صفحہ ۸ پر عبارت]
”جو بات سننے سے پہلے اُس کا جواب دے یہ اُس کی حماقت اور خجالت ہے۔“—امثال ۱۸:۱۳