مَیں افواہوں کو پھیلنے سے کیسے روک سکتا ہوں؟
نوجوانوں کا سوال
مَیں افواہوں کو پھیلنے سے کیسے روک سکتا ہوں؟
”مَیں ایک پارٹی پر گئی۔ دوسرے ہی دن یہ خبر اُچھالی گئی کہ مَیں نے اُس پارٹی پر حاضر ایک لڑکے کے ساتھ بےحیائی کی۔ یہ بات بالکل جھوٹ تھی۔“—لنڈا۔ *
”کبھیکبھار میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جاتی ہیں کہ میرا کسی لڑکی کے ساتھ چکر چل رہا ہے لیکن میں اُس لڑکی کو جانتا تک نہیں۔ ایسے لوگ جو افواہیں پھیلاتے ہیں پہلے یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ آیا یہ خبر سچ ہے کہ نہیں۔“—مائک۔
افواہیں ایک فلم سے بھی زیادہ سنسنیخیز ہو سکتی ہیں۔ اُنیس سالہ امبر کہتی ہے: ”لوگ میرے بارے میں کوئی نہ کوئی افواہ پھیلاتے رہتے ہیں۔ میرے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مَیں حاملہ ہوں، مَیں کئی بچوں کو ضائع کرا چکی ہوں اور یہ کہ مَیں منشیات لیتی اور فروخت کرتی ہوں۔ میرے بارے میں لوگ ایسی باتیں کیوں پھیلاتے ہیں؟ اس کا میرے پاس بھی کوئی جواب نہیں۔“
افواہیں اور جدید ٹیکنالوجی
جب آپ کے والدین نوجوان تھے تو دوسروں کے بارے میں تازہ تازہ خبریں باتچیت کرنے سے پھیلتی تھیں۔ لیکن آجکل تو ایک لفظ بولے بغیر ہی ایسا کرنا ممکن ہے۔ ایمیل اور ایسایمایس کے ذریعے کسی کے بارے میں خبریں پھیلا کر بآسانی اُس کی بدنامی کی جا سکتی ہے۔ ایک آدھ بٹن دبانے سے ایک ساتھ کئی لوگوں تک کسی دوسرے شخص کے بارے میں افواہ پھیلائی جا سکتی ہے۔
کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ لوگ فون پر بات کرنے کی بجائے انٹرنیٹ اور ایسایمایس کے ذریعے افواہیں پھیلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کبھی کبھار کسی کو ذلیل کرنے کے لئے تو ایک پورا ویب سائٹ مخصوص کِیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر بلاگ سائٹ استعمال کئے جاتے ہیں جن میں روزنامے شائع ہوتے ہیں۔ ان میں ایسی خبریں اُچھالی جاتی ہیں جو ایک شخص مُنہ سے کہنے کی ہمت نہ رکھتا۔ ایک جائزے کے مطابق ۵۸ فیصد نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ پر اُن کے بارے میں جھوٹی خبریں اُچھالی جا چکی ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ . . .
کیا دوسروں کے بارے میں باتیں کرنا غلط ہوتا ہے؟
آپ اس سوال کا کیسے جواب دیں گے؟
□ یہ صحیح ہے □ یہ غلط ہے
فلپیوں ۲:۴) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دوسروں کے معاملوں میں دخلاندازی کریں۔ (۱-پطرس ۴:۱۵) لیکن باتچیت کرنے سے ہمیں ضروری باتوں کا پتا چلتا ہے مثلاً کس کی شادی ہو رہی ہے، کس کا بچہ ہونے والا ہے اور کس کو مدد کی ضرورت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم دوسروں کے بارے میں کبھی بات نہیں کریں گے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں اُن کی خیرخیریت کی فکر ہے۔
دوسروں کے بارے میں گفتگو کرنے میں بذاتخود کوئی بُرائی نہیں ہوتی۔ خدا کے کلام میں بتایا جاتا ہے کہ ”ہر ایک دوسروں کے احوال [یعنی حال] پر بھی نظر رکھے۔“ (لیکن ہمیں خبردار رہنا چاہئے کیونکہ بات کو افواہ کی شکل اختیار کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ فرض کریں کہ کسی کے مُنہ سے یہ بات نکل جائے: ”اِرم اور عارف کی جوڑی کتنی اچھی لگتی۔“ لیکن شاید اس بات کو بڑھاچڑھا کر یہ خبر اُچھالی جانے لگے کہ ”اِرم اور عارف ایک دوسرے پر فدا ہو گئے ہیں۔“ البتہ اِرم اور عارف کو اس بات کی خبر تک نہیں۔ شاید آپ سوچیں کہ یہ اتنی بڑی بات تو نہیں ہے۔ لیکن ذرا تصور کریں کہ اگر آپ اِرم یا عارف ہوتے تو اپنے بارے میں ایسی افواہیں سُن کر آپ کو کیسا لگتا؟
جُولی نامی ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کے بارے میں بھی اس قسم کی افواہیں پھیلائی گئیں۔ وہ کہتی ہے: ”مجھے بہت غصہ آیا اور مَیں سوچنے لگی کہ اب سے مَیں کسی پر بھروسہ نہیں کروں گی۔“ اُنیس سالہ جین کو بھی اس طرح کی صورتحال کا سامنا تھا۔ وہ کہتی ہے: ”میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں کہ میرا ایک لڑکے کے ساتھ چکر چل رہا ہے۔ اس لئے مَیں اُس لڑکے سے کنارہ کرنے لگی۔ لیکن مجھے اس بات کا افسوس ہے کیونکہ ہم دونوں دوست تھے۔ میرے خیال میں ہمیں ایسی افواہوں کا شکار ہوئے بغیر ایک دوسرے سے باتچیت کرنے کا حق ہونا چاہئے۔“
یہ بات واضح ہے کہ افواہیں پھیلانے سے دوسروں پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ لیکن افواہوں کا شکار لوگ اکثر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بھی افواہیں پھیلائی ہیں۔ اصل میں جب کسی کی بُرائی کی جاتی ہے تو اس قسم کی گفتگو میں حصہ لینا بہت آسان ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اٹھارہ سالہ فلپ کا خیال ہے کہ ”یہ ایک قسم کی دل بہلائی ہے۔ لوگ اپنے مسئلوں سے توجہ ہٹانے کے لئے دوسروں کی نکتہچینی کرتے ہیں۔“ توپھر اگر آپ کسی سے باتچیت کر رہے ہیں اور باتوں کا رُخ افواہوں کی طرف جا رہا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟
محتاط رہیں
ذرا تصور کریں کہ آپ ایک بڑی سڑک پر گاڑی چلا رہے ہیں۔ اچانک آپ کو رُخ بدلنا پڑتا ہے یا گاڑی کا بریک لگانا پڑتا ہے۔ گاڑی چلاتے وقت محتاط رہنے سے آپ ایسی صورتحال سے نپٹ سکتے ہیں۔
اسی طرح ہماری باتچیت بآسانی افواہ میں بدل سکتی ہے۔ محتاط رہنے سے آپ باتچیت کا رُخ بدل سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو شاید آپ کی وجہ سے کسی کے دل کو ٹھیس پہنچے۔ مائک بتاتا ہے: ”مَیں نے ایک لڑکی کے بارے میں کہا تھا کہ اُس کے سر پر ہر وقت لڑکے سوار رہتے ہیں اور یہ بات اُس لڑکی کے کانوں تک پہنچ گئی۔ جب ہمارا سامنا ہوا تو اُس نے مجھے بتایا کہ میرے الفاظ سے اُسے کتنا دُکھ پہنچا تھا۔ مَیں اُس کی لڑکھڑاتی ہوئی آواز کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔ ہم نے آپس میں صلح تو کر لی ہے لیکن مجھے ابھی بھی اس بات پر بڑا افسوس ہے کہ مَیں نے کسی کا دل دُکھایا ہے۔“
یہ سچ ہے کہ ایسی باتچیت پر بریک لگانا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن سترہ سالہ کیرولین کہتی ہے: ”آپ کو خبردار رہنا چاہئے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم نہیں کہ ایک خبر سچی ہے کہ نہیں تو اسے مت دہرائیں۔ اگر آپ اس بات کو کسی اَور کے سامنے دہرائیں گے تو شاید آپ جھوٹی خبر کو اُچھال رہے ہوں گے۔“
افواہیں پھیلانے سے خبردار رہنے کے لئے ان آیتوں میں دی گئی صلاح پر غور کریں۔
”کلام کی کثرت خطا سے خالی نہیں لیکن ہونٹوں کو قابو میں رکھنے والا دانا ہے۔“ (امثال ۱۰:۱۹) جتنا آپ باتیں کریں گے اُتنا ہی آپ کے مُنہ سے ایسی بات نکلنے کا امکان ہوگا جس کی وجہ سے آپ بعد میں پچتائیں گے۔ اس لئے بہتر ہے کہ زیادہ باتیں کرنے کی بجائے ہم خاموش رہیں۔
”صادق کا دل سوچ کر جواب دیتا ہے پر شریروں کا مُنہ بُری باتیں اُگلتا ہے۔“ (امثال ۱۵:۲۸) سوچسمجھ کر بات کریں۔
”ہر ایک شخص اپنے پڑوسی سے سچ بولے۔“ (افسیوں ۴:۲۵) خبر دہرانے سے پہلے پتہ لگائیں کہ وہ سچ ہے یا نہیں۔
”جیسا تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تُم بھی اُن کے ساتھ ویسا ہی کرو۔“ (لوقا ۶:۳۱) اگر آپ کے پاس کسی کے بارے میں سچی خبر ہے تو بھی ذرا سوچیں کہ اگر آپ اُس شخص کی جگہ ہوتے اور کوئی آپ کے بارے میں ایسی خبریں پھیلاتا تو آپ کو کیسا لگتا۔
رومیوں ۱۴:۱۹) اگر ایک خبر سچی بھی ہو، لیکن اس کو سُن کر لوگوں کا حوصلہ پست ہو تو یہ نقصاندہ ہو سکتی ہے۔
”پس ہم اُن باتوں کے طالب رہیں جن سے میلملاپ اور باہمی ترقی ہو۔“ (”جس طرح ہم نے تُم کو حکم دِیا چپچاپ رہنے اور اپنا کاروبار کرنے اور اپنے ہاتھوں سے محنت کرنے کی ہمت کرو۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۴:۱۱) دوسروں کے معاملوں میں مشغول رہنے کی بجائے دوسرے کاموں میں دلچسپی لیں۔
جب آپ کے بارے میں افواہ پھیلائی جاتی ہے
شاید آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہمیں اپنی زبان کو لگام دے کر دوسروں کے بارے میں خبریں اُچھالنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اور خاص طور پر اگر آپ کے بارے میں افواہیں پھیلائی گئی ہیں تو آپ اس معاملے کو اَور بھی سنجیدگی سے لیں گے۔ سولہ سالہ جواین کے بارے میں بہت بُری افواہیں پھیلائی گئیں۔ وہ کہتی ہے: ”مجھے لگتا تھا کہ اب مجھ سے کوئی بھی دوستی نہیں کرنا چاہے گا۔ رات کو مَیں روتے روتے سوتی۔ مجھے لگتا کہ میری بہت بدنامی ہوئی ہے۔“
اگر آپ کے بارے میں افواہیں پھیلائی گئی ہیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟
▪ یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں کہ لوگ افواہیں کیوں پھیلاتے ہیں۔ بعض لوگ دوسروں میں مقبول بننے کی کوشش میں یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ہر کسی کے بارے کوئی نہ کوئی بات جانتے ہیں۔ چودہ سالہ کیرن کہتی ہے: ”ایسے لوگ جو افواہیں پھیلاتے ہیں وہ دوسروں کی نگاہوں میں اُونچا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔“ کچھ نوجوان احساسِکمتری کی وجہ سے دوسروں کے بارے میں بُری باتیں پھیلاتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتے ہیں۔ سترہ سالہ رینا کہتی ہے: ”لوگ بوریت محسوس کرتے ہیں، اس لئے وہ افواہیں پھیلانے سے اپنی زندگی میں سنسنی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔“
▪ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ جب ایک شخص افواہوں کا شکار ہوتا ہے تو غصے اور ذلت کی وجہ سے شاید وہ کچھ ایسی بات کہہ دے جو بعد میں اُس کے لئے پچتاوے کا باعث بن جائے۔ خدا کے کلام میں بتایا جاتا ہے کہ ”زُودرنج [یعنی جلد خفا ہو جانے والا] بیوقوفی کرتا ہے۔“ (امثال ۱۴:۱۷) ایسی صورتحال میں لازمی ہے کہ آپ خود پر قابو پائیں۔ ایسا کہنا آسان ہے لیکن ایسا کرنا مشکل ہے۔ لیکن اگر آپ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں گے تو آپ کوئی غلط بات کہنے سے بچے رہیں گے۔
▪ بات کس نیت سے کہی گئی ہے؟ خود سے پوچھیں کہ ”کیا یہ خبر واقعی میرے بارے میں پھیلائی گئی ہے؟ کیا کسی کو میرے بارے میں غلطفہمی ہو گئی ہے؟ کیا مَیں اس بات کو حد سے زیادہ دل پر لگا رہا ہوں؟“ یہ بات سچ ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ آپ کے بارے میں افواہیں پھیلائے۔ لیکن اگر آپ جلدبازی میں کچھ کہہ یا کر بیٹھیں تو شاید اُس افواہ سے زیادہ آپ کا ردِعمل ہی آپ کے لئے مصیبت کا باعث بن جائے۔ اس لئے کیوں نہ رینا کا نظریہ اپنائیں جو کہتی ہے: ”جب لوگ میرے بارے میں بُری بات کہتے ہیں تو مجھے ٹھیس ضرور پہنچتی ہے۔ لیکن مَیں کوشش کرتی ہوں کہ مَیں اس بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لوں کیونکہ اگلے ہی ہفتے وہ مجھے بھول کر کسی اَور کے بارے میں باتیں کر رہے ہوں گے۔“ *
افواہوں کو جھوٹا ثابت کرنے کا نسخہ
پاک صحائف میں بتایا جاتا ہے کہ ”ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔ کامل شخص وہ ہے جو باتوں میں خطا نہ کرے۔ وہ سارے بدن کو بھی قابو میں رکھ سکتا ہے۔“ (یعقوب ۳:۲) لہٰذا اگر لوگ ہمارے بارے میں کچھ کہہ بھی دیں تو ہر ایک بات کو سنجیدگی سے لینا دانشمندی کی بات نہ ہوگی۔ واعظ ۷:۲۲ میں بتایا جاتا ہے: ”تُو تو اپنے دل سے جانتا ہے کہ تُو نے آپ اِسی طرح سے اَوروں پر لعنت کی ہے۔“
اگر آپ کے بارے میں خبریں اُچھالی جاتی ہیں تو آپ کا اچھا چالچلن ان باتوں کو جھوٹا ثابت کر سکتا ہے۔ یسوع مسیح نے کہا تھا: ”حکمت اپنے کاموں سے راست ثابت ہوئی۔“ (متی ۱۱:۱۹) اس لئے سب کے ساتھ پیارومحبت سے پیش آئیں۔ اس طرح لوگ آپ کے بارے میں افواہیں پھیلانا بند کر دیں گے اور آپ افواہوں کے اثرات سے بہتر طور پر نپٹ پائیں گے۔
”نوجوانوں کے سوال“ کے سلسلے میں مزید مضامین ویب سائٹ www.watchtower.org/ype پر مل سکتے ہیں
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 اس مضمون میں بعض نام بدل دئے گئے ہیں۔
^ پیراگراف 33 کچھ صورتحال میں شاید یہ بہتر ہو کہ آپ اُس شخص کا نرمی سے سامنا کریں جس نے آپ کے بارے میں افواہ پھیلائی ہے۔ لیکن اکثر اس کی ضرورت نہیں پیش آتی کیونکہ ”محبت بہت سے گُناہوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔“—۱-پطرس ۴:۸۔
ذرا سوچیں
▪ افواہیں پھیلانے سے بچنے کے لئے آپ کیا کر سکتے ہیں؟
▪ اگر کوئی آپ کے بارے میں جھوٹی خبریں اُچھال رہا ہے تو آپ کیا کریں گے؟