عالمی اُفق
عالمی اُفق
”کتنی عجیب بات ہے کہ جب ایک شخص صدر بن جاتا ہے تو وہ زیادہ دُعائیں مانگنے لگتا ہے۔“—ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر باراک اوباما۔
جب ارجنٹینا میں ۱۰سے ۲۴ سال کی عمر کے لوگوں سے پوچھا گیا کہ وہ اپنی حبالوطنی کیسے ظاہر کریں گے تو اُن میں سے ۵۶ فیصد نے کہا کہ وہ اپنے ملک کی فٹبال ٹیم جیسی ٹیشرٹس پہن کر ایسا کریں گے۔—ارجنٹینا کا اخبار لا ناسیون۔
تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ”ایک سال میں جو خوراک پیدا کی جاتی ہے، دُنیابھر میں اُس کا ۳۰ فیصد حصہ یعنی ایک ارب ۳۰ کروڑ ٹن یا تو ضائع کِیا جاتا ہے یا پھر بےکار جاتا ہے۔“ —اِٹلی میں اقوامِمتحدہ کا عالمی ادارۂخوراکوزراعت۔
”آجکل پوری دُنیا میں لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہیں سننے کو ملتی ہیں۔ اِس لئے ہماری فوج کو غیرملکی دُشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے تاکہ عوام کی اور اُن چیزوں کی حفاظت ہو جو ہم سب کو عزیز ہیں۔“ —روسی آرتھوڈکس چرچ کے سربراہ، کیرل۔
جرمنی کی ایک انشورنس کمپنی کو ۲۰۱۰ء میں جتنے بھی ٹریفک حادثوں کی اطلاع دی گئی، اُن میں سے سب سے زیادہ حادثے صبح سات سے آٹھ بجے کے دوران پیش آئے۔ اِس کمپنی کے ایک اہلکار نے کہا: ”ٹریفک حادثوں سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وقت پر گھر سے نکلا جائے تاکہ کام پر پہنچنے کے لئے کافی وقت ہو۔“ —جرمنی کا ایک خبررساں ادارہ، پریسےپورٹل۔
جوان امام
ملائشیا کے شہر کوالا لمپور سے ایک ٹیوی پروگرام نشر کِیا جا رہا ہے جس کا نام ”امام مودا“ یعنی جوان امام ہے۔ شرکاء کی عمریں ۱۸ سے ۲۷ سال کے لگبھگ ہیں اور وہ مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس ریالٹی شو میں جیتنے والا اچھا امام قرار پاتا ہے اور اُس کو انعام میں پیسہ اور نئی گاڑی ملتی ہے۔ اِس کے علاوہ اُسے کسی مسجد میں امام کے طور پر ملازمت کی پیشکش کی جاتی ہے، سعودی عرب کی ایک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے وظیفہ ملتا ہے اور ایک بار حج کرنے کا خرچہ بھی دیا جاتا ہے۔ شو میں شرکت کرنے والوں کے لئے شرائط یہ ہیں کہ اُنہیں امامت کے فرائض نبھانے آتے ہوں، مذہبی موضوعات اور جدید مسائل پر بحثومباحثہ کرنا آتا ہو اور قرآن کی تلاوت کرنی آتی ہو۔ شو کے بانی کہتے ہیں کہ وہ اِس شو کے ذریعے نوجوان نسل کو دینِاسلام کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں۔
آن لائن لاپروائیوں کا خمیازہ
بہت سے لوگ جو کسی سوشل نیٹورک کے ذریعے لوگوں سے رابطہ رکھتے ہیں، اُنہیں احساس نہیں ہوتا کہ ویبسائٹ پر ذاتی معلومات ڈالنا کتنا نقصاندہ ہو سکتا ہے۔ جب وہ اپنے ویب پیج پر معلومات ڈالتے وقت لاپروائی سے کام لیتے ہیں تو آگے چل کر اُنہیں اکثر اِس کی بھاری قیمت چُکانی پڑتی ہے۔ آسٹریلیا کے ایک اخبار میں سکول کے ایک ہیڈ ماسٹر ٹیموتھی رائٹ کا یہ بیان جاری ہوا: ”لوگ جو فضول باتیں، جھوٹی افواہیں، بےہودہ تصویریں اور ذاتی معلومات اپنے ویب پیج پر ڈالتے ہیں، یہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جاتی ہیں اور کوئی بھی شخص جس کا اُس سوشل نیٹورکنگ ویبسائٹ پر اکاؤنٹ ہے، اِنہیں دیکھ سکتا ہے۔“ ٹیموتھی رائٹ نے یہ بھی کہا کہ لوگ جو معلومات ”۱۵ سال کی عمر میں اپنے ویب پیج پر ڈالتے ہیں، اُسے اُن کے مینیجر ۱۰ سال بعد بھی دیکھ سکتے ہیں۔“