مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اپنے دل کے ارادوں کو جانچیں

اپنے دل کے ارادوں کو جانچیں

بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ‌باز اور لاعلاج ہے۔‏“‏ (‏یرم ۱۷:‏۹‏)‏ جب ہمارے دل میں کوئی شدید خواہش پیدا ہوتی ہے تو اکثر ہم اِسے پورا کرنے کے کئی جواز تلاش کر لیتے ہیں۔‏

پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏بُرے خیال۔‏ خونریزیاں۔‏ زناکاریاں۔‏ حرام‌کاریاں۔‏ چوریاں۔‏ جھوٹی گواہیاں۔‏ بدگوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں۔‏“‏ (‏متی ۱۵:‏۱۹‏)‏ ہمارا دل ہمیں گمراہ کر سکتا ہے۔‏ اِس وجہ سے ہم شاید ایسے کاموں کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں جو خدا کی مرضی کے خلاف ہیں۔‏ اور اکثر گُناہ میں پھنسنے کے بعد ہی ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے دل کی بات مان کر بڑی غلطی کی ہے۔‏ لہٰذا کوئی بھی غلط قدم اُٹھانے سے پہلے ہم اپنے دل کے ارادے کیسے معلوم کر سکتے ہیں؟‏

دل کے ارادوں کو جانچنے کے طریقے

ہر روز بائبل کو پڑھنے سے ہمارے دل پر کیا اثر ہوگا؟‏

ہر روز بائبل کو پڑھیں اور اِس پر سوچ‌بچار کریں۔‏

پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏خدا کا کلام زندہ اور مؤثر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جان اور روح اور بندبند اور گُودے کو جُدا کرکے گذر جاتا ہے۔‏“‏ یہ ہمارے ”‏دل کے خیالوں اور اِرادوں کو جانچتا ہے۔‏“‏ (‏عبر ۴:‏۱۲‏)‏ جب ہم بائبل کی روشنی میں اپنی سوچ اور کاموں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم یہ جاننے کے قابل ہوتے ہیں کہ ہمارے دل میں کیا ہے۔‏ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ہر روز بائبل کو پڑھیں اور اِس پر سوچ‌بچار کریں۔‏ یوں خدا کے خیالات اور نظریات ہمارے دل پر نقش ہوں گے۔‏

بائبل میں درج نصیحت اور اصولوں پر دھیان دینے سے ہم اپنے ضمیر کی تربیت کرتے ہیں۔‏ ہمارا ”‏ضمیر .‏ .‏ .‏ گواہی دیتا ہے“‏ کہ آیا ہمارا کوئی کام صحیح ہے یا غلط۔‏ (‏روم ۹:‏۱‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ جب ہم کسی ناجائز کام کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارا ضمیر اِس کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ بائبل میں بہت سے ایسے لوگوں کا ذکر کِیا گیا ہے جن کی زندگی پر غور کرنے سے ہم ‏”‏نصیحت“‏ حاصل کر سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کر ۱۰:‏۱۱‏)‏ اِن لوگوں کی مثال پر عمل کرنے سے ہم غلط قدم اُٹھانے سے بچ سکتے ہیں۔‏ اپنے دل کے ارادوں کو معلوم کرنے کے لئے ہمیں اَور کیا کرنا چاہئے؟‏

ہم اپنے دل کے ارادے جانچنے کے لئے خدا سے مدد مانگ سکتے ہیں۔‏

اپنے دل کے ارادے جاننے کے لئے خدا سے مدد مانگیں۔‏

یہوواہ خدا ”‏دل کو جانچتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏توا ۲۹:‏۱۷‏)‏ وہ ”‏ہمارے دل سے بڑا ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوح ۳:‏۲۰‏)‏ خدا کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔‏ اگر ہم دُعا میں خدا کو اپنی پریشانیوں،‏ احساسات اور خواہشات کے بارے میں بتاتے ہیں تو وہ ہماری مدد کرے گا کہ ہم اپنے دل کے ارادوں کو جانچ سکیں۔‏ ہم خدا سے یہ درخواست بھی کر سکتے ہیں کہ وہ ہم میں ”‏پاک دل پیدا“‏ کرے۔‏ (‏زبور ۵۱:‏۱۰‏)‏ اِس لئے دل کی نیت جاننے کے لئے دُعا ایک اہم ذریعہ ہے۔‏

اجلاسوں پر ہمیں ایسے مشورے ملتے ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے دل کے ارادے جانچ سکتے ہیں۔‏

اجلاسوں میں پیش کی جانے والی معلومات کو دھیان سے سنیں۔‏

ایسا کرنے سے اپنے دل کے ارادوں کا جائزہ لینے میں ہماری مدد ہوگی۔‏ یہ سچ ہے کہ ہر اجلاس پر ہم نئی باتیں نہیں سیکھتے۔‏ پھر بھی جب ہم باقاعدگی سے اجلاسوں پر جاتے ہیں تو ہم پاک کلام کے اصولوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ اجلاسوں پر ہمیں ایسی باتیں یاد دِلائی جاتی ہیں جو دل کے ارادوں کو جانچنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔‏ اِس سلسلے میں بہن‌بھائیوں کے جوابوں کو دھیان سے سننا بھی بہت فائدہ‌مند ثابت ہوتا ہے۔‏ (‏امثا ۲۷:‏۱۷‏)‏ اگر ہم باقاعدگی سے اجلاسوں میں نہیں جاتے اور اپنے بہن‌بھائیوں سے نہیں ملتے تو یہ ہمارے لئے نقصان‌دہ ہو سکتا ہے۔‏ شاید ہم ’‏اپنی خواہشوں کے طالب‘‏ ہو جائیں یعنی ہر معاملے میں اپنی من‌مانی کرنے لگیں۔‏ (‏امثا ۱۸:‏۱‏)‏ لہٰذا ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”‏کیا مَیں باقاعدگی سے اجلاسوں میں جاتا ہوں اور تمام معلومات کو دھیان سے سنتا ہوں؟‏“‏—‏عبر ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

دل کی جھوٹی دلیلیں

ہمارا حیلہ‌باز دل ہمیں زندگی کے بہت سے معاملات میں گمراہ کر سکتا ہے۔‏ آئیں،‏ اِن میں سے چار پر غور کریں:‏

مال‌ودولت کی جستجو:‏

ہر انسان چاہتا ہے کہ اُسے زندگی کی بنیادی سہولیات ملیں۔‏ لیکن یسوع مسیح نے سکھایا کہ ہمیں مال‌ودولت کو حد سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہئے۔‏ اِس سلسلے میں اُنہوں نے ایک امیر آدمی کی مثال دی جس کے گودام اناج سے بھرے ہوئے تھے۔‏ اُس کے پاس مزید اناج ذخیرہ کرنے کے لئے جگہ نہیں تھی۔‏ اِس لئے اُس نے پُرانے گودام ڈھا کر زیادہ بڑے گودام بنانے کا فیصلہ کِیا۔‏ اُس نے اپنے دل میں سوچا کہ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ اُن میں اپنا سارا اناج اور مال بھر رکھوں گا اور اپنی جان سے کہوں گا اَے جان!‏ تیرے پاس بہت برسوں کے لئے بہت سا مال جمع ہے۔‏ چین کر۔‏ کھا پی۔‏ خوش رہ۔‏“‏ لیکن اُس نے زندگی کی اِس اہم حقیقت کو نظرانداز کر دیا کہ شاید وہ کل تک زندہ ہی نہ رہے۔‏—‏لو ۱۲:‏۱۶-‏۲۰‏۔‏

عمر بڑھنے کے ساتھ‌ساتھ شاید ہمیں یہ فکر ستانے لگتی ہے کہ ہم بڑھاپے میں گزربسر کیسے کریں گے۔‏ اِس وجہ سے شاید ہم اُن دنوں پر بھی اوورٹائم کرنے کے جواز ڈھونڈنے لگیں جب ہمارے اجلاس ہوتے ہیں۔‏ ہم شاید مُنادی کے کام میں کم حصہ لیں یا دیگر اہم ذمہ‌داریوں کو نظرانداز کرنے لگیں۔‏ لیکن ایسا کرنا عقل‌مندی کی بات نہیں۔‏ شاید ہم جوان ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ کُل‌وقتی خدمت سے بہتر اَور کوئی کام نہیں ہے۔‏ پھر بھی کیا ہم یہ سوچتے ہیں کہ ”‏پہلے مَیں کچھ پیسہ جمع کر لوں،‏ اُس کے بعد پہل‌کار کے طور پر خدمت کروں گا۔‏“‏ کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ہم آج خدا کی نظر میں امیر بننے کی پوری کوشش کریں؟‏ کیا پتہ کل ہم زندہ رہیں یا نہ رہیں!‏

شراب‌نوشی:‏

امثال ۲۳:‏۲۰ میں بیان کِیا گیا ہے:‏ ”‏تُو شرابیوں میں شامل نہ ہو۔‏“‏ اگر ایک شخص شراب،‏ بیئر یا مے پینے کی شدید خواہش رکھتا ہے تو وہ شاید یہ جواز پیش کرے کہ باقاعدگی سے پینے میں کوئی خرابی نہیں ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ کہے کہ ”‏مَیں تو بس ذہنی سکون کے لئے پیتا ہوں،‏ نشے کے لئے نہیں۔‏“‏ اگر ہمیں لگتا ہے کہ سکون کے لئے ہمیں شراب کی ضرورت ہے تو ایسی صورت میں اپنے دل کے ارادوں کا سنجیدگی سے جائزہ لینا اچھا ہوگا۔‏

دوستوں کا انتخاب:‏

بِلاشُبہ ہمیں سکول میں،‏ کام کی جگہ پر اور مُنادی کے کام میں ایسے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے جو ہمارے ہم‌ایمان نہیں ہیں۔‏ لیکن ایسے لوگوں کے ساتھ میل‌جول رکھنا یہاں تک کہ اُن سے دوستی کرنا ایک فرق معاملہ ہے۔‏ کیا ہمارے پاس اِس کا جواز یہ ہوتا ہے کہ اِن لوگوں میں بھی بہت سی اچھی خوبیاں ہیں؟‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏فریب نہ کھاؤ۔‏ بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۱۵:‏۳۳‏)‏ جس طرح تھوڑی سی گندگی صاف پانی کو گندا کر دیتی ہے اُسی طرح دُنیا کے لوگوں سے دوستی،‏ یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی کو داغدار کر سکتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ دُنیا کے لوگوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ میل‌جول رکھنا ہماری سوچ اور بات‌چیت کو آلودہ کرتا ہے،‏ ہمارے چال‌چلن اور لباس کے سلسلے میں ہمارے انتخاب پر بُرا اثر ڈالتا ہے۔‏

تفریح کا انتخاب:‏

جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے اب کئی طرح کی تفریح کرنا بےحد آسان تو ہو گیا ہے لیکن اِس میں سے زیادہ‌تر تفریح مسیحیوں کے لئے مناسب نہیں ہے۔‏ پولس رسول نے کہا کہ ’‏تُم میں کسی طرح کی ناپاکی کا ذکر تک نہ ہو۔‏‘‏ (‏افس ۵:‏۳‏)‏ اگر ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم کوئی ایسا پروگرام دیکھیں یا سنیں جس میں گندی باتیں یا منظر ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے دل میں یہ سوچیں کہ تھوڑی بہت تفریح کی ضرورت تو سب کو ہوتی ہے اور کون کیسی تفریح کرتا ہے،‏ یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔‏ لیکن آئیں،‏ یہ عزم کریں کہ ہم پولس رسول کی نصیحت پر دھیان دیں گے اور اپنی آنکھوں اور کانوں کو ”‏ناپاکی“‏ سے دُور رکھیں گے۔‏

ہم اپنے اندر سدھار لا سکتے ہیں

شاید ہم اپنے دل کے جھانسے میں آ گئے ہیں اور ہم نے اپنے غلط کاموں کو صحیح قرار دینے کی عادت بنا لی ہے۔‏ اگر ایسا ہے تو ہم اپنے اندر سدھار لا سکتے ہیں۔‏ (‏افس ۴:‏۲۲-‏۲۴‏)‏ اِس سلسلے میں آئیں،‏ دو اشخاص کی مثال پر غور کریں۔‏

میگویل * نے آرام‌وآسائش کی زندگی گزارنے کے سلسلے میں اپنی سوچ کو بدلا۔‏ اُنہوں نے بتایا:‏ ”‏مَیں اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ایک ایسے ملک میں رہتا تھا جہاں لوگوں کا خیال تھا کہ جدید چیزیں اور زندگی کی بہترین سہولیات حاصل کرنا بہت اہم ہے۔‏ ایک وقت تھا جب مَیں نے بھی یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لئے دن‌رات ایک کر دیا تھا۔‏ مَیں یہ سمجھتا تھا کہ مَیں مال‌ودولت کی ہوس کا شکار نہیں بنوں گا۔‏ لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ مَیں ایک ایسے راستے پر چل پڑا ہوں جس کا کوئی آخر نہیں ہے۔‏ مَیں نے یہوواہ خدا کو اپنے دل کے ارادوں کے بارے میں بتایا۔‏ مَیں نے اُس کے سامنے اِس خواہش کا اِظہار کِیا کہ ہم ایک خاندان کے طور پر اُس کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنا چاہتے ہیں۔‏ ہم نے اپنی زندگی کو سادہ بنانے اور ایک ایسے علاقے میں منتقل ہونے کا فیصلہ کِیا جہاں مبشروں کی زیادہ ضرورت تھی۔‏ جلد ہی ہم پہل‌کاروں کے طور پر خدمت کرنے لگے۔‏ ہم نے یہ دیکھ لیا ہے کہ ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے ضروری نہیں کہ انسان کے پاس ہر طرح کی آسائش ہو۔‏“‏

آئیں،‏ اب ایک اَور شخص کی مثال پر غور کریں جس کا نام لی ہے۔‏ اُنہوں نے اپنے دل کے ارادوں کو جانچا اور اُنہیں احساس ہوا کہ اُنہیں بُری صحبت ترک کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اپنے کاروبار کی وجہ سے مجھے اکثر اُن لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا پڑتا تھا جو مجھے سامان سپلائی کرتے تھے۔‏ مجھے معلوم تھا کہ ایسی کاروباری ملاقاتوں کے دوران بہت زیادہ پیناپلانا ہوتا ہے۔‏ لیکن مجھے اِن میں شریک ہونے سے بڑا مزہ آتا تھا۔‏ اگرچہ مَیں کبھی نشے میں دھت نہیں ہوا پھر بھی مَیں نے کئی بار بہت زیادہ شراب پی۔‏ لیکن بعد میں مجھے اپنے کئے پر بہت پشیمانی ہوئی۔‏ مَیں نے اپنے دل کی نیت کا جائزہ لیا۔‏ پاک کلام کی نصیحت اور بزرگوں کے مشوروں سے مَیں سمجھ گیا کہ اِن لوگوں کے ساتھ میرے تعلقات صرف کاروبار کی حد تک نہیں تھے۔‏ اصل میں مجھے اُن لوگوں کی صحبت اچھی لگنے لگی تھی جو یہوواہ خدا سے محبت نہیں کرتے۔‏ اب جہاں تک ممکن ہو،‏ مَیں اپنے کاروباری معاملات ٹیلیفون پر نپٹاتا ہوں اور سامان سپلائی کرنے والے لوگوں سے کم سے کم ملتا ہوں۔‏“‏

ہمیں اپنے دل کے اِرادوں کو جانچنے کی سنجیدگی سے کوشش کرنی چاہئے۔‏ اِس سلسلے میں ہمیں یہوواہ خدا سے دُعا کرنی چاہئے کیونکہ وہ ”‏دِلوں کے بھید جانتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۴۴:‏۲۱‏)‏ ہمارے پاس خدا کا کلام بھی ہے جو ہمارے لئے ایک آئینے کی طرح ہے۔‏ (‏یعقو ۱:‏۲۲-‏۲۵‏)‏ اِس کے علاوہ اجلاسوں اور ہماری کتابوں اور رسالوں کے ذریعے بھی ہمیں بہت سی فائدہ‌مند معلومات اور مشورے ملتے ہیں۔‏ اِن سب ذریعوں کو کام میں لانے سے ہم اپنے دل کی حفاظت کر سکتے ہیں۔‏ یوں ہم نیکی اور صداقت کی راہ پر آگے بڑھتے رہیں گے۔‏

^ پیراگراف 18 نام بدل دئے گئے ہیں۔‏