اُمید کا دامن کبھی نہ چھوڑیں
شاید آپ کافی سالوں سے یہوواہ کے گواہ ہیں۔ لیکن آپ کا جیونساتھی یہوواہ کا گواہ نہیں ہے۔ آپ کی خواہش ہے کہ وہ آپ کے ساتھ مل کر یہوواہ خدا کی عبادت کرے۔
یا شاید آپ ایک شخص کو بائبل سے تعلیم دے رہے تھے۔ وہ شروع میں تو بڑے شوق سے سیکھ رہا تھا مگر پھر اُس نے آپ کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنا بند کر دیا۔ اِس وجہ سے آپ نااُمید ہو کر سوچنے لگے کہ اب وہ کبھی یہوواہ کا گواہ نہیں بنے گا۔
واعظ ۱۱:۱۔
اگر آپ ایسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں تو ملک برطانیہ سے کچھ مثالوں پر غور کریں جن سے ظاہر ہوگا کہ ہمیں ایسی صورتوں میں ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ ہم اُن لوگوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جنہوں نے ابھی تک پاک کلام کی سچائیوں کو قبول نہیں کِیا۔ اِس سلسلے میں ہم جو کوششیں کرتے ہیں، وہ ’اپنی روٹی پانی میں ڈالنے‘ کے برابر ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ شاید ہمیں ہماری کوششوں کا صلہ دیر سے ملے۔—یہوواہ خدا کی خدمت کرنا جاری رکھیں
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم پاک کلام کی سچائیوں کو قبول کرنے میں دوسروں کی مدد کریں تو یہ بہت اہم ہے کہ ہم خود یہوواہ خدا کی خدمت کرنا جاری رکھیں۔ ہمیں یہوواہ خدا سے لپٹے رہنا چاہئے اور بائبل کے اصولوں کے مطابق چلنے کا عزم کرنا چاہئے۔ (است ۱۰:۲۰) اِس سلسلے میں جورجینا کی مثال پر غور کریں۔ جب اُنہوں نے ۱۹۷۰ء میں یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنا شروع کِیا تو اُن کے شوہر کیراکوس کو بہت غصہ آیا۔ کیراکوس نے بڑی کوشش کی کہ جورجینا بائبل کا مطالعہ نہ کریں۔ وہ یہوواہ کے گواہوں کو گھر پر نہیں آنے دیتے تھے۔ اگر وہ گھر میں یہوواہ کے گواہوں کی کتابیں یا رسالے دیکھتے تو اِنہیں پھینک دیتے تھے۔
جب جورجینا نے اجلاسوں میں جانا شروع کِیا تو کیراکوس اَور بھی آگ بگولا ہو گئے۔ ایک دن وہ یہوواہ کے گواہوں سے تکرار کرنے کنگڈمہال پہنچ گئے۔ وہاں ایک بہن نے دیکھا کہ کیراکوس کو انگریزی زبان اِتنی اچھی طرح بولنی نہیں آتی۔ وہ جانتی تھی کہ اُن کی مادری زبان یونانی ہے۔ اِس لئے اُس بہن نے یونانی بولنے والے ایک بھائی کو فون کِیا تاکہ وہ آکر کیراکوس سے بات کرے۔ اُس بھائی نے آکر کیراکوس سے بڑی نرمی سے بات کی جس سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ اُنہوں نے کچھ مہینوں تک اُس بھائی کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کِیا مگر پھر کیراکوس نے مطالعہ کرنا بند کر دیا۔
جورجینا کو اَور تین سال اپنے شوہر کی مخالفت سہنی پڑی۔ کیراکوس نے جورجینا سے کہا: ”اگر تُم بپتسمہ لو گی تو مَیں تمہیں چھوڑ دوں گا۔“ وقت گزرتا گیا اور پھر وہ دن آیا جب جورجینا کا بپتسمہ ہونا تھا۔ اُنہوں نے یہوواہ خدا سے بڑی دُعا کی کہ اُن کا شوہر اُنہیں نہ چھوڑے۔ جب یہوواہ کے گواہ جورجینا کو اجتماع پر لے جانے اُن کے گھر پہنچے تو کیراکوس نے اُن سے کہا: ”آپ لوگ آگے جائیں، ہم اپنی گاڑی میں آپ کے پیچھے پیچھے آتے ہیں۔“ کیراکوس اجتماع کے صبح کے پروگرام کے اختتام تک رہے اور اُنہوں نے اپنی بیوی کو بپتسمہ لیتے ہوئے دیکھا۔
جورجینا کے بپتسمے کے بعد کیراکوس کا رویہ کسی حد تک بدل گیا اور اُنہوں نے آہستہآہستہ اپنی زندگی میں بڑی تبدیلیاں کیں۔ جورجینا کو یہوواہ کے گواہوں سے ملے ہوئے تقریباً ۴۰ سال گزر چکے تھے۔ اِس لمبے انتظار کے بعد آخرکار اُن کے شوہر نے بپتسمہ لے لیا۔ کیراکوس میں اِتنی بڑی تبدیلی کیوں آئی؟ اُنہوں نے کہا: ”مَیں اِس بات سے بہت متاثر ہوا کہ جورجینا نے مخالفت کے باوجود اپنے مذہب کو نہیں چھوڑا تھا۔“ جورجینا نے کہا: ”مَیں نے یہ عزم کر رکھا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، مَیں اپنے خدا کی عبادت کرنا نہیں چھوڑوں گی۔ اِس سارے عرصے کے دوران مَیں یہوواہ خدا سے دُعا کرتی رہی۔ اور اُمید کا دامن نہ چھوڑا۔“
نئی انسانیت کو پہن لیں
اگر ہم نئی انسانیت پہن لیتے ہیں تو ہمارا جیونساتھی یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔ پطرس رسول نے بیویوں کو نصیحت کی: ”تُم بھی اپنےاپنے شوہر کے تابع رہو۔ اِس لئے کہ اگر بعض اُن میں سے کلام کو نہ مانتے ہوں تو بھی تمہارے پاکیزہ چالچلن اور خوف کو دیکھ کر بغیر کلام کے اپنیاپنی بیوی کے چالچلن سے خدا کی طرف کھنچ جائیں۔“ (۱-پطر ۳:۱، ۲) اِس سلسلے میں کرسٹین کی مثال پر غور کریں۔ اُن کے شوہر نے ایک لمبے عرصے کے بعد سچائی کو قبول کِیا۔ لیکن کرسٹین اِس تمام وقت کے دوران پطرس رسول کی نصیحت پر عمل کرتی رہیں۔ جب کرسٹین یہوواہ کی گواہ بنیں تو اُن کے شوہر جن کا نام جان ہے، خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ جان کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنا نہیں چاہتے تھے لیکن وہ دیکھ رہے تھے کہ کرسٹین کا نیا مذہب اُن کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں محسوس کر رہا تھا کہ اِس نئے مذہب میں آکر وہ بہت خوش تھی۔ وہ مضبوط شخصیت کی مالک بن گئی اور میری زندگی میں جو بھی مشکلات آئیں، اِن میں اُس نے میرا بڑا ساتھ دیا۔“
کرسٹین نے کبھی بھی اپنے شوہر پر دباؤ نہیں ڈالا تھا کہ وہ اُن کا مذہب اپنا لیں۔ جان نے کہا: ”وہ شروع ہی سے سمجھتی تھی کہ یہ بہتر ہوگا کہ وہ میرے ساتھ مذہب کے بارے میں کوئی بات نہ کرے۔ اِس کی بجائے اُس نے دیگر طریقوں سے میرے اندر سچائی سیکھنے کا شوق پیدا کِیا۔“ جب کرسٹین مینارِنگہبانی اور جاگو! میں سائنس یا کسی اَور موضوع پر کوئی مضمون دیکھتیں جو اُن کے خیال اُن کے شوہر کو پسند آئے گا تو وہ اپنے شوہر سے کہتیں: ”میرا خیال ہے کہ آپ کو یہ مضمون بہت اچھا لگے گا۔“
پھر جان ریٹائر ہو گئے اور مالی کا کام کرنے لگے۔ اب اُن کے پاس کچھ اہم سوالوں پر غور کرنے کے لئے زیادہ وقت تھا جیسے کہ ”کیا زندگی کسی اتفاق یا حادثے کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی؟ یا پھر کسی ہستی نے انسانوں کو ایک خاص مقصد کے لئے خلق کِیا تھا؟“ ایک دن جان ایک یہوواہ کے گواہ سے باتچیت کر رہے تھے۔ اُس گواہ نے جان سے پوچھا: ”بائبل کا مطالعہ کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟“ جان نے بتایا: ”اب چونکہ مَیں خدا کو ماننے لگا تھا اِس لئے مَیں اُس کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے پر راضی ہو گیا۔“
کتنی خوشی کی بات ہے کہ کرسٹین نے اُمید کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔ وہ ۲۰ سال سے یہ دُعا مانگ رہی تھیں کہ اُن کا شوہر اُن کے ساتھ مل کر یہوواہ خدا کی عبادت کرے۔ آخرکار اُن کی یہ دُعا قبول ہوئی اور جان نے بپتسمہ لے لیا۔ اب وہ دونوں پوری لگن سے یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ جان نے بتایا: ”مجھے دو باتوں نے قائل کِیا۔ ایک بات تو یہ ہے ۱-پطرس ۳:۱، ۲ میں درج نصیحت پر عمل کِیا جس کا اُنہیں بڑا صلہ ملا۔
کہ یہوواہ کے گواہ بہت ہی مہربان اور ملنسار لوگ ہیں۔ دوسری یہ کہ یہوواہ کے گواہ وفادار، قابلِاعتماد اور مخلص جیونساتھی ثابت ہوتے ہیں۔“ کرسٹین نےبیج کو بڑھنے میں وقت لگتا ہے
شاید کوئی شخص بڑے شوق سے ہمارے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنا شروع کرے مگر بعد میں کسی وجہ سے مطالعہ کرنا بند کر دے۔ ایسی صورت میں کیا ہمیں اُمید کا دامن چھوڑ دینا چاہئے؟ سلیمان بادشاہ نے لکھا: ”صبح کو اپنا بیج بو اور شام کو بھی اپنا ہاتھ ڈھیلا نہ ہونے دے کیونکہ تُو نہیں جانتا کہ اُن میں سے کونسا بارور ہوگا۔ یہ یا وہ یا دونوں کے دونوں برابر برومند ہوں گے۔“ (واعظ ۱۱:۶) بعض اوقات کسی شخص کے دل کی زمین میں سچائی کا بیج اُگنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ لیکن آخرکار وہ شخص سمجھ جاتا ہے کہ خدا کی قربت حاصل کرنا بہت اہم ہے۔ (یعقو ۴:۸) آئیں، اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔
ایلس اپنے ملک بھارت سے اِنگلینڈ منتقل ہو گئیں۔ سن ۱۹۷۴ء میں وہ یہوواہ کی ایک گواہ کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے لگیں جن کا نام سٹیلا تھا۔ ایلس ہندی زبان بولتی تھیں لیکن وہ چاہتی تھیں کہ انگریزی زبان بھی اچھی طرح بول سکیں۔ وہ چند سال تک بائبل کا مطالعہ کرتی رہیں۔ ایلس ایک کلیسیا میں کچھ اجلاسوں میں بھی گئیں جہاں انگریزی زبان بولی جاتی تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ وہ سچی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ لیکن ابھی تک وہ دل سے اِس کی قدر نہیں کر رہی تھیں۔ اصل میں وہ دولت کمانا چاہتی تھیں اور اُنہیں پارٹیوں میں جانا بہت اچھا لگتا تھا۔ پھر ایک ایسا وقت آیا کہ اُنہوں نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنا چھوڑ دیا۔
تقریباً ۳۰ سال بعد سٹیلا کو ایلس کی طرف سے ایک خط ملا۔ اِس خط میں لکھا تھا: ”آپ کو یاد ہوگا کہ آپ ۱۹۷۴ء میں میرے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتی تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ یہ جان کر بہت حیران ہوں گی کہ حالیہ صوبائی اجتماع پر مَیں نے بپتسمہ لے لیا ہے۔ آپ نے میری زندگی کا رُخ موڑنے میں بہت اہم کردار ادا کِیا ہے۔ آپ نے میرے دل میں سچائی کا بیج بویا تھا۔ اگرچہ اُس وقت مَیں اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کرنے کو تیار نہیں تھی لیکن سچائی کا بیج میرے دلودماغ کی زمین میں پڑا رہا۔“
ایلس اپنی زندگی یہوواہ خدا کے نام کرنے کو تیار کیوں ہو گئیں؟ ایلس نے بتایا کہ وہ ۱۹۹۷ء میں اپنے شوہر کی وفات کے بعد ڈپریشن کا شکار ہو گئی تھیں۔ ایسی حالت میں اُنہوں نے خدا سے دُعا کی۔ دس منٹ کے اندراندر دو یہوواہ کی گواہ اُن کے گھر پر آئیں جو پنجابی زبان بولتی تھیں۔ اِن گواہوں نے ایلس کو ایک پرچہ دیا جس کا عنوان تھا، مُتوَفی عزیزوں کے لئے کیا اُمید ہے؟ ایلس کو لگا کہ خدا نے اُن کی دُعا کا جواب دیا ہے اور اُنہوں نے یہوواہ کے گواہوں سے ملنے کا فیصلہ کِیا۔ لیکن اُنہیں گواہوں کا اَتاپتا معلوم نہیں تھا۔ پھر اُنہیں ایک پُرانی ڈائری ملی جس میں پنجابی کلیسیا کا پتہ لکھا ہوا تھا جو اُنہیں سٹیلا نے دیا تھا۔ جب ایلس اِس کلیسیا میں گئیں تو بہنبھائی اُن سے بڑے پیار اور محبت سے ملے۔ ایلس نے کہا کہ ”گھر واپس آنے کے بعد بھی بہنبھائیوں کی محبت کا احساس میرے ساتھ رہا۔ اِس سے مجھے کسی حد تک ڈیپریشن سے نپٹنے میں مدد ملی۔“
ایلس نے باقاعدگی سے اجلاسوں میں جانا شروع کر دیا اور پھر سے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنے لگیں۔ اُنہوں نے پنجابی زبان بولنی اور پڑھنی سیکھ لی۔ پھر ۲۰۰۳ء میں اُنہوں نے بپتسمہ لے لیا۔ اُنہوں نے سٹیلا کو جو خط لکھا، اُس کے آخر میں اُنہوں نے کہا: ”مَیں آپ کی بہت شکرگزار ہوں کہ ۲۹ سال پہلے آپ نے میرے دل میں سچائی کا بیج بویا اور میرے لئے ایک اچھی مثال قائم کی۔“
”مَیں آپ کی بہت شکرگزار ہوں کہ ۲۹ سال پہلے آپ نے میرے دل میں سچائی کا بیج بویا اور میرے لئے ایک اچھی مثال قائم کی۔“—ایلس
آپ نے اِن ساری مثالوں سے کیا سیکھا ہے؟ شاید کسی شخص کو پاک کلام کی سچائیاں قبول کرنے میں آپ کی توقع سے زیادہ وقت لگ جائے۔ لیکن اگر اُس شخص کے دل میں خدا کو جاننے کی خواہش ہے؛ وہ کُھلے ذہن کے ساتھ حقائق پر غور کرنے کے لئے تیار ہے اور خاکسار ہے تو یہوواہ خدا پاک کلام کی سچائیوں کو سمجھنے اور اِنہیں قبول کرنے میں اُس کی مدد کرے گا۔ یسوع مسیح نے ایک تمثیل میں کہا تھا کہ بیج اِس طرح اُگتا اور بڑھتا ہے کہ بیج بونے والے کو پتہ نہیں چلتا۔ اُنہوں نے کہا کہ ”زمین آپ سے آپ پھل لاتی ہے پہلے پتی۔ پھر بالیں۔ پھر بالوں میں تیار دانے۔“ (مر ۴:۲۷، ۲۸) بیج کی نشوونما آہستہآہستہ اور اپنے آپ ہوتی ہے۔ دراصل ایک مبشر کسی شخص کے حالات سے پوری طرح واقف نہیں ہوتا اِس لئے وہ یہ نہیں جانتا کہ اُس شخص کے دل میں سچائی کا بیج کب اور کیسے بڑھے گا۔ لہٰذا اگر آپ بیج بونے میں ہمت نہیں ہاریں گے تو وقت آنے پر شاید آپ کو اِس کا پھل ملے۔
اِس سلسلے میں دُعا کی اہمیت کو کبھی بھی کم نہ سمجھیں۔ جورجینا اور کرسٹین بھی یہوواہ خدا سے بِلاناغہ دُعا کرتی رہیں۔ اگر آپ بھی ”دُعا کرنے میں مشغول“ رہیں اور اُمید کا دامن کبھی نہ چھوڑیں تو ”بہت دنوں کے بعد“ آپ کو وہ ”روٹی“ پھر سے مل جائے گی جو آپ نے ’پانی میں ڈالی‘ تھی۔—روم ۱۲:۱۲؛ واعظ ۱۱:۱۔