خلقت میں خدا کے وجود کا ثبوت
”اَے [یہوواہ] ہمارے خداوند اور خدا تُو ہی تمجید . . . کے لائق ہے کیونکہ تُو ہی نے سب چیزیں پیدا کیں۔“ —مکا ۴:۱۱۔
۱. ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ خدا پر ہمارا ایمان مضبوط رہے؟
بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ صرف اُنہی چیزوں کا یقین کرتے ہیں جنہیں وہ دیکھ سکتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ یہوواہ خدا پر ایمان رکھیں جسے ”کسی نے کبھی نہیں دیکھا“؟ (یوح ۱:۱۸) اِس کے علاوہ ہم ”اَندیکھے خدا“ پر اپنا ایمان کیسے مضبوط کر سکتے ہیں؟ (کل ۱:۱۵) سب سے پہلے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کن تعلیمات یا نظریات کی وجہ سے خدا کے بارے میں سچائی پر پردہ پڑ گیا ہے۔ پھر ہمیں خدا کے پاک کلام کو بڑی مہارت سے اِستعمال کرتے ہوئے اِن تعلیمات کو جھوٹا ثابت کرنا چاہئے جو ”خدا کی پہچان کے برخلاف سر اُٹھائے ہوئے“ ہیں۔—۲-کر ۱۰:۴، ۵۔
۲، ۳. کن دو نظریات کی وجہ سے کچھ لوگ خدا پر ایمان رکھنا چھوڑ دیتے ہیں؟
۲ ایک نظریہ جس کی وجہ سے بہت سے لوگ خدا کے وجود کا اِنکار کرتے ہیں، وہ اِرتقا کا نظریہ ہے۔ یہ نظریہ پاک کلام کی تعلیمات کے خلاف ہے اور لوگوں کو اچھے مستقبل کی اُمید سے محروم کر دیتا ہے۔ اِس نظریے کے مطابق زندگی خودبخود وجود میں آئی۔ لیکن اگر یہ نظریہ سچ ہوتا تو اِنسان کی زندگی بالکل بےمقصد ہوتی۔
۳ اِرتقا کے نظریے کے برعکس کچھ مسیحی عالم یہ مانتے ہیں کہ ہماری کائنات صرف چند ہزار سال پہلے بنی ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا نے جن چھ دنوں میں پوری کائنات کو بنایا، وہ ۲۴ گھنٹے کے دن تھے۔ یوں وہ ایسے ٹھوس سائنسی ثبوتوں کو رد کرتے ہیں جو اُن کے نظریے کو غلط ثابت کرتے ہیں۔ ایسے عالم شاید بائبل کا بڑا احترام کرتے ہیں لیکن اُن کی تعلیم کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ بائبل میں لکھی ہوئی باتیں سائنسی حقیقتوں کے خلاف ہیں۔ اِس لئے وہ بائبل پر ایمان رکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ عالم پہلی صدی کے اُن لوگوں کی طرح ہیں جو خدا کے بارے میں غیرت تو رکھتے تھے ”مگر سمجھ کے ساتھ نہیں۔“ (روم ۱۰:۲) اِن عالموں کی تعلیم اور اِرتقا کا نظریہ قلعوں کی طرح مضبوط ہے۔ لیکن ہم خدا کے کلام کے ذریعے اِن کو کیسے ڈھا سکتے ہیں؟ اِس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا کے کلام کا صحیح علم حاصل کریں اور دیکھیں کہ اِس میں دراصل کیا تعلیم دی گئی ہے۔
خدا کے وجود پر ایمان کی بنیاد
۴. ہمارے ایمان کی بنیاد کیا ہونی چاہئے؟
۴ بائبل میں علم حاصل کرنے کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ (امثا ۱۰:۱۴) یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہمارا ایمان ٹھوس ثبوتوں پر مبنی ہو نہ کہ اِنسانی نظریوں یا مذہبی روایتوں پر۔ (عبرانیوں ۱۱:۱ کو پڑھیں۔) اگر ہمارا یہ یقین پکا نہیں کہ خدا موجود ہے تو پھر ہم اُس پر مضبوط ایمان کیسے رکھ سکتے ہیں؟ (عبرانیوں ۱۱:۶ کو پڑھیں۔) لہٰذا ہم خدا کے وجود کے سلسلے میں اپنی پسند کے نظریات نہیں اپناتے بلکہ ہم حقائق کا جائزہ لیتے ہیں اور سوچسمجھ کر کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں۔
۵. خدا کے وجود پر یقین رکھنے کی ایک وجہ کیا ہے؟
۵ اگر ہم خدا کو دیکھ نہیں سکتے تو پھر ہم یہ یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ وہ موجود ہے؟ پولسُ رسول نے اِس کی ایک وجہ بتائی۔ اُنہوں نے کہا: ”اُس کی اَندیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دُنیا کی پیدایش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں۔“ (روم ۱:۲۰) جو شخص خدا کے وجود پر شک کرتا ہے، آپ اُسے یہ یقین کیسے دِلا سکتے ہیں کہ پولسُ رسول کی بات سچ ہے؟ آپ اُس شخص کی توجہ کائنات میں موجود کچھ ایسی چیزوں پر دِلا سکتے ہیں جن سے ہمارے خالق کی حکمت اور قدرت کا ثبوت ملتا ہے۔
خلقت میں خدا کی طاقت کا ثبوت
۶، ۷. زمین کے کن دو حفاظتی نظاموں سے خدا کی قدرت کا ثبوت ملتا ہے؟
۶ یہوواہ خدا نے ہماری زمین کو محفوظ رکھنے کے لئے دو نظام قائم کئے ہیں جن سے اُس کی بےپناہ قدرت کا ثبوت ملتا ہے۔ ایک نظام کرۂہوائی ہے یعنی زمین کے اُوپر فضا اور دوسرا نظام زمین کا مقناطیسی میدان ہے۔ فضا نہ صرف جانداروں کے لئے سانس لینا ممکن بناتی ہے بلکہ یہ ایک ایسی چھت کی طرح ہے جو ہمیں خلا سے گِرنے والے پتھروں سے بچاتی ہے۔ یہ پتھر ویسے تو زمین کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن فضا میں داخل ہوتے ہی یہ جل جاتے ہیں۔ رات کو یہ ٹوٹتے ہوئے ستاروں کی شکل میں آسمان پر نظر آتے ہیں۔
۷ زمین کا مقناطیسی میدان بھی ایک حفاظتی چھت کی طرح ہے۔ زمین کا اندرونی حصہ پگھلے ہوئے لوہے سے بنا ہے جس سے ایک مقناطیسی اثر پیدا ہوتا ہے جو زمین کے چاروں طرف اور خلا تک پہنچتا ہے۔ اِسی اثر کی وجہ سے ہم سورج کی نقصاندہ شعاعوں سے بچتے ہیں۔ اگر یہ مقناطیسی میدان نہ ہو تو زمین پر ساری چیزیں جُھلس کر رہ جائیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ مقناطیسی میدان نقصاندہ شعاعوں کو یا تو جذب کر لیتا ہے یا واپس خلا میں دھکیل دیتا ہے۔ جب یہ شعاعیں زمین کے مقناطیسی میدان سے ٹکراتی ہیں تو اِن سے خوبصورت روشنیاں پیدا ہوتی ہیں جو شمالی اور جنوبی قطب کے علاقوں میں نظر آتی ہیں۔ بےشک اِس سے یہوواہ خدا کی ”قدرت کی عظمت“ ظاہر ہوتی ہے۔—یسعیاہ ۴۰:۲۶ کو پڑھیں۔
خلقت میں خدا کی حکمت کا ثبوت
۸، ۹. یہوواہ خدا نے زندگی کو قائم رکھنے کے لئے جو اِنتظام کئے ہیں، اُن سے اُس کی حکمت کیسے ظاہر ہوتی ہے؟
۸ یہوواہ خدا نے زندگی کو قائم رکھنے کے لئے کچھ اَور اِنتظام بھی کئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بڑی حکمت والا ہے۔ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ فرض کریں کہ آپ ایک ایسے شہر میں رہ رہے ہیں جو چاروں طرف سے بند ہے اور وہاں کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ اِس شہر میں باہر سے صاف اور تازہ پانی لانے کا کوئی اِنتظام نہیں۔ اور کچرا باہر پھینکنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں۔ جلد ہی یہ شہر گندگی سے بھر جائے گا اور اِس میں رہنا دوبھر ہو جائے گا۔ ہماری زمین بھی ایک لحاظ سے ایسے شہر کی طرح ہے۔ اِس میں تازہ پانی کی مقدار محدود ہے۔ ہم کہیں باہر سے تازہ پانی نہیں لا سکتے۔ اِس کے علاوہ ہم زمین کے کچرے کو خلا میں پھینک بھی نہیں سکتے۔ پھر بھی ہماری زمین ہزاروں سال سے کروڑوں جانداروں کا آشیانہ ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ زمین پر ایسے نظام ہیں جن کی بدولت کچرا خودبخود گلسڑ جاتا ہے اور زندگی کے لئے ضروری چیزیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔
۹ مثلاً زمین پر آکسیجن گیس کبھی ختم نہیں ہوتی۔ کروڑوں اِنسان اور جانور سانس لینے سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں اور کاربنڈائیآکسائیڈ گیس خارج کرتے ہیں۔ پھر بھی ہماری فضا میں نہ تو آکسیجن کی کمی ہوتی ہے اور نہ ہی کاربنڈائیآکسائیڈ کی زیادتی ہوتی ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ پودے اپنی خوراک تیار اعما ۱۷:۲۵) بےشک خدا کی حکمت بےمثال ہے!
کرنے کے عمل کے دوران دھوپ اور پانی کے ساتھساتھ کاربن ڈائیآکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔ اِس عمل کے دوران شکر تیار ہوتی ہے اور آکسیجن خارج ہوتی ہے۔ اِس طرح آکسیجن مسلسل پیدا ہوتی رہتی ہے۔ واقعی یہوواہ خدا پودوں کے ذریعے ”سب کو زندگی اور سانس“ دیتا ہے۔ (۱۰، ۱۱. مونارک تتلی اور بھنبھیری پر غور کرنے سے ہمیں یہوواہ خدا کی حکمت کا کیا ثبوت ملتا ہے؟
۱۰ ہماری زمین پر پائے جانے والے طرحطرح کے جاندار بھی خدا کی حکمت کا ثبوت ہیں۔ بعض ماہرین کے اندازے کے مطابق اِس زمین پر ۲۰ لاکھ اقسام کے جاندار پائے جاتے ہیں جبکہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ زمین پر جانداروں کی ۱۰ کروڑ قسمیں موجود ہیں۔ (زبور ۱۰۴:۲۴ کو پڑھیں۔) آئیں، کچھ جانداروں پر غور کریں جو خالق کی حکمت کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔
۱۱ سب سے پہلے ایک قسم کی تتلی پر غور کرتے ہیں جو مونارک کہلاتی ہے۔ اِس کا دماغ بالپین کی نوک جتنا ہوتا ہے۔ پھر بھی یہ تتلی کینیڈا سے میکسیکو کے جنگلات کا راستہ تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اِس کا یہ سفر تقریباً ۳۰۰۰ کلومیٹر (۱۸۰۰ میل) لمبا ہوتا ہے۔ مونارک تتلی سورج کی سمت سے اپنے راستے کا تعیّن کرتی ہے۔ یہوواہ خدا نے اِس تتلی کے ننھے سے دماغ میں اِتنی صلاحیت رکھی ہے کہ یہ سورج کی سمت بدلتے رہنے کے باوجود اپنا راستہ تلاش کر لیتی ہے۔ اِس کے علاوہ بھنبھیری پر غور کریں۔ اِس کی دونوں آنکھوں میں تقریباً ۶۰ ہزار عدسے ہوتے ہیں۔ اِس کا دماغ اگرچہ بہت چھوٹا ہوتا ہے پھر بھی وہ اِن تمام عدسوں سے آنے والے اِشارہ کو سمجھتا ہے اور اپنے اِردگِرد ہونے والی ذرا سی حرکت کو بھی محسوس کر لیتا ہے۔
۱۲، ۱۳. خلیوں کی ساخت کے حوالے سے آپ کو کونسی بات حیرتانگیز لگتی ہے؟
۱۲ تمام جاندار خلیوں سے بنے ہوئے ہیں۔ یہوواہ خدا نے اِن خلیوں کو بھی بڑے حیرتانگیز طریقے سے بنایا ہے۔ آپ کا جسم تقریباً ایک سو کھرب خلیوں سے بنا ہے۔ ہر خلیے میں ڈیایناے ہوتا ہے جو آپس میں لپٹی ہوئی دو ڈوریوں کی طرح ہوتا ہے۔ اِس میں وہ نقشہ موجود ہوتا ہے جس کے مطابق آپ کا جسم تشکیل پاتا ہے۔
۱۳ ڈیایناے میں کتنی تفصیلات ذخیرہ ہو سکتی ہیں؟ اِس سلسلے میں ایک گرام ڈیایناے اور ایک سیڈی کا موازنہ کرکے دیکھیں۔ ایک سیڈی میں ایک پوری لغت ذخیرہ کی جا سکتی ہیں۔ یہ واقعی بڑی حیرت کی بات ہے کیونکہ سیڈی بہت ہی پتلی ہوتی ہے۔ لیکن جتنی معلومات ایک کھرب سیڈیز میں ذخیرہ کی جا سکتی ہیں اُتنی صرف ایک گرام ڈیایناے میں سما سکتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک چائے کے چمچ کے برابر ڈیایناے میں جتنی معلومات ہوتی ہیں، اُن سے زمین کی موجودہ آبادی سے ۳۵۰ گُنا زیادہ اِنسان بنائے جا سکتے ہیں۔
۱۴. اِنسانی بدن کے بارے میں سائنسی دریافتوں پر غور کرنے سے آپ کو کیا کرنے کی ترغیب ملتی ہے؟
۱۴ بادشاہ داؤد نے بتایا کہ یہوواہ خدا نے اِنسانی بدن کو تشکیل دینے والی معلومات ایک لحاظ سے ”کتاب“ میں درج کر دی ہیں۔ زبور ۱۳۹:۱۶، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن) جب داؤد بادشاہ نے اِس بات پر غور کِیا کہ اُن کا بدن کتنے حیرتانگیز طریقے سے بنا ہے تو اُنہیں یہوواہ خدا کی بڑائی کرنے کی ترغیب ملی۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں تیرا شکر کروں گا کیونکہ مَیں عجیبوغریب طور سے بنا ہوں تیرے کام حیرتانگیز ہیں۔ میرا دل اِسے خوب جانتا ہے۔“ (زبور ۱۳۹:۱۴) اِنسانی جسم کے بارے میں جدید سائنس نے جو باتیں دریافت کی ہیں، اُن سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا نے واقعی ہمیں بڑے شاندار طریقے سے بنایا ہے۔ اِن نئی دریافتوں پر غور کرنے سے ہمارے دل میں بھی خدا کی حمد کرنے کی خواہش بڑھتی ہے۔ بےشک کائنات کی ہر چیز پکار پکار کر خالق کے وجود کی گواہی دیتی ہے۔
اُنہوں نے کہا: ”تیری آنکھوں نے مجھے اُس وقت بھی دیکھا جب مَیں اپنی ماں کے پیٹ میں پَل رہا تھا؛ جب میرے اعضا بن رہے تھے اور اِن میں سے ایک بھی وجود میں نہیں آیا تھا تو تیری کتاب میں اِن کے بارے میں تفصیل لکھی تھی۔“ (خالق پر ایمان کو مضبوط کرنے میں دوسروں کی مدد کریں
۱۵، ۱۶. (الف) ہماری تنظیم نے جو کتابیں اور رسالے شائع کئے ہیں، اُن سے لوگوں کو خالق پر ایمان رکھنے میں مدد کیسے ملی ہے؟ (ب) ”کیا یہ خالق کی کاریگری ہے؟“ کے تحت شائع ہونے والا کونسا مضمون آپ کو خاص طور پر اچھا لگا؟
۱۵ کئی سالوں سے جاگو! رسالے میں تخلیق کے موضوع پر بہت سے مضامین شائع ہو رہے ہیں۔ اِن مضامین کو پڑھنے سے لاکھوں لوگوں نے دیکھا ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی چیزیں اُس کے بارے میں کیا ظاہر کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ستمبر ۲۰۰۶ء میں بہت سی زبانوں میں ایک خاص شمارہ شائع ہوا جس میں خالق کے وجود کے بارے میں ٹھوس ثبوت پیش کئے گئے۔ یہ شمارہ خاص طور پر اُن لوگوں کے لئے شائع کِیا گیا تھا جو اِرتقا پر ایمان رکھتے ہیں یا پھر بنیادپرست مذہبی عالموں کی تعلیم کی وجہ سے بائبل پر شک کرتے ہیں۔ اِس خصوصی شمارے کے بارے میں ایک بہن نے امریکہ کے برانچ کے دفتر کو لکھا: ”اِس رسالے کو بانٹنے کی مہم بڑی کامیاب رہی۔ ایک عورت نے ہم سے ۲۰ رسالے مانگے۔ وہ بائیولوجی کی ٹیچر ہے اور وہ یہ رسالے اپنے طالبِعلموں کو دینا چاہتی تھی۔“ ایک بھائی نے لکھا: ”مَیں تقریبا۱۹۵۰ًء سے مُنادی کا کام کر رہا ہوں اور اب ۷۵ سال کا ہونے والا ہوں۔ لیکن مُنادی کے کام میں جتنا مزہ اِس خصوصی شمارے کو بانٹنے میں آیا، اُتنا پہلے کبھی نہیں آیا۔“
۱۶ سن ۲۰۱۰ء میں ہمیں ایک بروشر ملا جس کا عنوان ہے واز لائف کریایٹڈ؟ اِس میں بہت سی تصویریں دی گئی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ اِنہیں دیکھ کر لوگوں کے دل میں خالق اور اُس کی تخلیق کے لئے قدر بڑھے۔ اِس بروشر کے ہر حصے کے آخر میں کچھ سوال بھی دئے گئے ہیں جن کے ذریعے لوگ اُس حصے میں دی گئی معلومات پر سوچبچار کر سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ جاگو! رسالے میں مضامین کا ایک سلسلہ شائع ہو رہا ہے جس کا عنوان ہے ”کیا یہ خالق کی کاریگری ہے؟“ یہ مضامین ہوتے تو بہت چھوٹے ہیں مگر اِن میں اِس بات کے پُختہ ثبوت پیش کئے جاتے ہیں کہ خدا کی تخلیق بڑی کمال کی ہے اور اِنسان نے تخلیق کی نقل کرکے بہت سی چیزیں ایجاد کی ہیں۔ کیا آپ نے اِن مضامین کو گھرگھر مُنادی کے دوران اور دیگر موقعوں پر گواہی دینے کے لئے اِستعمال کِیا ہے؟
۱۷، ۱۸. (الف) آپ اپنے بچوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ خالق پر اپنے ایمان کا دِفاع کر سکیں؟ (ب) کیا آپ نے اپنی خاندانی عبادت میں مضامین کا سلسلہ ”کیا یہ خالق کی کاریگری ہے؟“ اور بروشر واز لائف کریایٹڈ؟ کو اِستعمال کِیا ہے؟
۱۷ اگر آپ کے بچے ہیں تو کیا آپ نے اپنی خاندانی عبادت میں مضامین کا سلسلہ ”کیا یہ خالق کی کاریگری ہے؟“ پر غور کِیا ہے؟ اور اگر آپ انگریزی زبان جانتے ہیں تو کیا آپ نے بروشر واز لائف کریایٹڈ؟ کو اپنی خاندانی عبادت میں اِستعمال کِیا ہے؟ اگر آپ ایسا کریں گے تو خالق پر آپ کے بچوں کا ایمان مضبوط ہوگا۔ سائنسدان اِرتقا کے نظریے کو فروغ دیتے ہیں۔ ٹیوی کے پروگراموں اور فلموں میں بھی اِس نظریے کی حمایت کی جاتی ہے۔ اِس کے علاوہ سکول میں بچوں کو اِرتقا کے بارے میں سکھایا جاتا ہے۔ لہٰذا آپ کے بچے اِس جھوٹی تعلیم کی زد میں ہیں۔ لیکن آپ اُن کی مدد کر سکتے ہیں تاکہ وہ اِس جھوٹے نظریے کے خلاف اپنا دِفاع کر سکیں۔ اِس کے لئے آپ مضامین کا سلسلہ ”کیا یہ خالق کی کاریگری ہے؟“ کو اِستعمال کر سکتے ہیں۔ اِس میں دئے گئے ثبوتوں کی بِنا پر ہمارے نوجوان اِرتقا کے نظریے کو پرکھ سکتے ہیں اور صحیح اور غلط میں ”تمیز“ کر سکتے ہیں۔—امثا ۲:۱۰، ۱۱۔
۱۸ بعض اوقات ایسی خبریں سامنے آتی ہیں جن میں سائنسدان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہیں جانداروں کے قدیم باقیات ملے ہیں جو اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اِرتقا کا نظریہ صحیح ہے۔ اِس کے علاوہ یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ سائنسدانوں نے اپنے تجربوں سے ثابت کر دیا ہے کہ زندگی خودبخود وجود میں آ سکتی ہے۔ آپ ایسی خبروں کو پرکھنے اور حقائق کا جائزہ لینے میں اپنے بچوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ہماری کتابوں اور رسالوں میں دی گئی معلومات کو اِستعمال کریں۔ یوں آپ کے بچے خالق پر اپنے ایمان کا دِفاع کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے۔—۱-پطرس ۳:۱۵ کو پڑھیں۔
۱۹. ہمیں کونسا اعزاز حاصل ہے؟
۱۹ یہوواہ کی تنظیم نے گہری تحقیق کے بعد تخلیق کے موضوع پر کتابیں اور رسالے شائع کئے ہیں۔ اِن پر غور کرنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ساری خلقت خدا کی دلکش خوبیوں کا آئینہ ہے۔ اِس سے ہمارے دل اُس کی تعظیم سے بھر جاتے ہیں۔ (زبور ۱۹:۱، ۲) واقعی ہر شے کا خالق، یہوواہ خدا ساری عزت اور جلال کا حقدار ہے۔ اُس کی خدمت اور تمجید کرنا ہمارے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔—۱-تیم ۱:۱۷۔