اپنے چرواہوں کے فرمانبردار رہیں
”اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع رہو کیونکہ وہ تمہاری روحوں کے فائدہ کے لئے . . . جاگتے رہتے ہیں۔“—عبر ۱۳:۱۷۔
۱، ۲. پاک کلام میں یہوواہ خدا کو چرواہے سے تشبیہ کیوں دی گئی ہے؟
یہوواہ خدا نے اپنے کلام میں فرمایا ہے کہ وہ ایک چرواہے کی طرح ہے۔ (حز ۳۴:۱۱-۱۴) اِس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ کیسے پیش آتا ہے۔ ایک چرواہا اپنی بھیڑوں کی دیکھبھال اور حفاظت کرتا ہے۔ وہ اُنہیں ہری ہری چراگاہوں اور پانی کے چشموں کے پاس لے کر جاتا ہے۔ (زبور ۲۳:۱، ۲) دن ہو یا رات، وہ اُن کی نگرانی کرتا ہے۔ (لو ۲:۸) اُنہیں شکاری جانوروں سے بچاتا ہے۔ (۱-سمو ۱۷:۳۴، ۳۵) میمنوں کو گود میں لے کر چلتا ہے۔ (یسع ۴۰:۱۱) بھٹکی ہوئی بھیڑوں کو ڈھونڈتا ہے اور زخمیوں کی مرہمپٹی کرتا ہے۔—حز ۳۴:۱۶۔
۲ پُرانے زمانے میں زیادہتر اِسرائیلی لوگ چرواہے یا کسان تھے۔ اِس لئے جب یہوواہ خدا نے کہا کہ وہ ایک چرواہے کی طرح ہے تو اِسرائیلی اِس کا مطلب آسانی سے سمجھ گئے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر بھیڑوں کو توجہ دی جائے اور اُن کی اچھی دیکھبھال کی جائے تو وہ صحتمند رہتی ہیں۔ اِسی طرح اِنسانوں کو بھی یہوواہ خدا کی توجہ اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ (مر ۶:۳۴) اِس کے بغیر اِنسان بھٹک جاتے ہیں اور نقصان اُٹھاتے ہیں۔ وہ اُن بھیڑوں کی طرح بکھر جاتے ہیں ”جن کا چوپان نہ ہو۔“ (۱-سلا ۲۲:۱۷) لیکن جو لوگ یہوواہ خدا کی نگہبانی کو قبول کرتے ہیں، وہ اُن کا ہر لحاظ سے خیال رکھتا ہے۔
۳. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
۳ یہوواہ خدا آج بھی ایک چرواہے کی طرح اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے۔ آئیں، دیکھیں کہ وہ اپنی بھیڑوں کی رہنمائی کیسے کر رہا ہے اور اُن کی ضرورتیں کیسے پوری کر رہا ہے۔ اِس کے علاوہ ہم اِس بات پر بھی غور کریں گے کہ ہم اُس کی رہنمائی سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔
اچھا چرواہا نگہبانی کرنے کی ذمےداری سونپتا ہے
۴. یسوع مسیح اپنے باپ کی بھیڑوں کی دیکھبھال کرنے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟
۴ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو کلیسیا کا سربراہ مقرر کِیا ہے۔ (افس ۱:۲۲، ۲۳) یسوع مسیح ’اچھے چرواہے‘ ہیں۔ وہ اپنے باپ کی طرح بھیڑوں سے پیار کرتے ہیں اور اُن کا پوراپورا خیال رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے تو اپنی ”بھیڑوں کے لئے اپنی جان“ تک دے دی۔ (یوح ۱۰:۱۱، ۱۵) یسوع مسیح کی قربانی اِنسانوں کے لئے ایک بیشقیمت تحفہ ہے۔ (متی ۲۰:۲۸) یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ”جو کوئی [یسوع مسیح] پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“—یوح ۳:۱۶۔
۵، ۶. (الف) یسوع مسیح نے اپنی بھیڑوں کی دیکھبھال کے لئے کونسا اِنتظام کِیا ہے؟ اور اِس سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے بھیڑوں کو کیا کرنا چاہئے؟ (ب) کلیسیا کے بزرگوں کے فرمانبردار رہنے کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟
۵ بھیڑیں یہ کیسے ظاہر کرتی ہیں کہ وہ یسوع مسیح کو اپنا چرواہا مانتی ہیں؟ یسوع مسیح نے کہا: ”میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور مَیں اُنہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھےپیچھے چلتی ہیں۔“ (یوح ۱۰:۲۷) اچھے چرواہے کی آواز کو سننے کا مطلب ہے کہ ہم ہر معاملے میں اُس کی رہنمائی کو قبول کریں۔ اِس میں یہ شامل ہے کہ ہم بزرگوں کی فرمانبرداری کریں جنہیں یسوع مسیح نے بھیڑوں کی نگہبانی کرنے کے لئے مقرر کِیا ہے۔ یسوع مسیح نے بتایا تھا کہ جو کام اُنہوں نے شروع کِیا ہے، اُسے اُن کے رسول اور شاگرد جاری رکھیں گے۔ رسولوں اور شاگردوں کو یہ ذمےداری دی گئی کہ وہ یسوع مسیح کی بھیڑوں کو چرائیں اور اُنہیں تعلیم دیں۔ (متی ۲۸:۲۰؛ یوحنا ۲۱:۱۵-۱۷ کو پڑھیں۔) جیسے جیسے بادشاہت کی خوشخبری پھیلتی گئی، شاگردوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ اِس لئے یسوع مسیح نے ہر کلیسیا کی نگہبانی کرنے کے لئے پُختہ مسیحیوں کو مقرر کرنے کا اِنتظام شروع کِیا۔—افس ۴:۱۱، ۱۲۔
۶ پہلی صدی میں پولسُ رسول نے اِفسس کے مسیحیوں کو بتایا کہ روحُالقدس نے اُنہیں ”خدا کی کلیسیا کی گلّہبانی“ کرنے کے لئے مقرر کِیا ہے۔ (اعما ۲۰:۲۸) آج بھی روحُالقدس کلیسیا میں نگہبان مقرر کرتی ہے۔ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ خدا کے کلام میں روحُالقدس کی ہدایت سے نگہبانوں کے لئے کچھ شرائط لکھی گئی ہیں اور جو بھائی نگہبان مقرر ہوتے ہیں، وہ پہلے اِن شرائط پر پورا اُترتے ہیں۔ لہٰذا بزرگوں کے فرمانبردار رہنے سے ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے لئے احترام ظاہر کرتے ہیں جو سب سے عظیم چرواہے ہیں۔ (لو ۱۰:۱۶) کلیسیا کے بزرگوں کے تابع رہنے کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔ لیکن اِس کی کچھ اَور وجوہات بھی ہیں۔
۷. یہوواہ خدا کی قربت میں رہنے کے لئے بزرگ اپنے بہنبھائیوں کی مدد کیسے کرتے ہیں؟
۷ بزرگ اپنے بہنبھائیوں کو ہمیشہ پاک کلام سے حوصلہافزائی اور مشورے دیتے ہیں۔ اُن کا مقصد یہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ بہنبھائیوں کی زندگی کے مالک بن بیٹھیں۔ (۲-کر ۱:۲۴) اِس کی بجائے وہ اُنہیں پاک کلام کے اصول بتاتے ہیں تاکہ وہ اچھے فیصلے کر سکیں اور کلیسیا میں امن اور اِتحاد قائم رہے۔ (۱-کر ۱۴:۳۳، ۴۰) بزرگ ’ہمارے فائدے کے لئے جاگتے رہتے ہیں۔‘ اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بزرگوں کی یہ خواہش ہے کہ کلیسیا کا ہر رُکن یہوواہ خدا کی قربت میں رہے۔ اِس لئے اگر وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی بہن یا بھائی غلط قدم اُٹھانے والا ہے یا پھر اُٹھا چُکا ہے تو وہ فوراً اُس کی مدد کو پہنچتے ہیں۔ (گل ۶:۱، ۲؛ یہوداہ ۲۲) واقعی ہمارے پاس ”اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع“ رہنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔—عبرانیوں ۱۳:۱۷ کو پڑھیں۔
۸. بزرگ اپنی بھیڑوں کا دِفاع کس طرح کرتے ہیں؟
۸ پولسُ رسول ایک چرواہے کی طرح اپنے بہنبھائیوں کی دیکھبھال کرتے تھے۔ اُنہوں نے کُلسّے کے مسیحیوں کو لکھا: ”خبردار کوئی شخص تُم کو اُس فیلسوفی اور لاحاصل فریب سے شکار نہ کر لے جو اِنسانوں کی روایت اور دُنیوی اِبتدائی باتوں کے موافق ہیں نہ کہ مسیح کے موافق۔“ (کل ۲:۸) اِس آیت میں ایک اَور وجہ نظر آتی ہے جس کی بِنا پر ہمیں بزرگوں کی ہدایت پر دھیان دینا چاہئے۔ وہ بہنبھائیوں کو ایسے لوگوں سے خبردار کرتے ہیں جو اُن کے ایمان کو تباہ کر سکتے ہیں۔ اِس طرح وہ خدا کی بھیڑوں کا دِفاع کرتے ہیں۔ پطرس رسول نے مسیحیوں کو ’جھوٹے نبیوں‘ اور ’جھوٹے اُستادوں‘ سے خبردار کِیا تھا جو ”بےقیام دلوں“ یعنی کمزور ایمان والوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ (۲-پطر ۲:۱، ۱۴) آجکل بھی بزرگوں کو چاہئے کہ وہ بھیڑوں کو اِسی طرح خبردار کرتے رہیں۔ کلیسیا کے بزرگ پُختہ مسیحی ہوتے ہیں اور زندگی کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اِس کے علاوہ بزرگ بننے سے پہلے وہ یہ ثابت کر چکے ہوتے ہیں کہ وہ پاک کلام کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور دوسروں کو سکھانے کے لائق ہیں۔ (۱-تیم ۳:۲؛ طط ۱:۹) وہ اپنے تجربے، علم اور حکمت کی بِنا پر بھیڑوں کی رہنمائی کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
اچھا چرواہا بھیڑوں کو چراتا اور اُن کی حفاظت کرتا ہے
۹. آجکل یسوع مسیح کلیسیا کو روحانی خوراک اور رہنمائی کیسے فراہم کر رہے ہیں؟
۹ یہوواہ خدا اپنی تنظیم کے ذریعے اپنے تمام بندوں کو روحانی خوراک کثرت سے دے رہا ہے۔ ہم سب کو بہت سے مشورے اور ہدایتیں ہماری کتابوں اور رسالوں کے ذریعے دئے جاتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ہماری تنظیم کلیسیا کے بزرگوں کو خاص ہدایتیں فراہم کرتی ہے۔ یہ ہدایتیں اُنہیں خطوں یا سفری نگہبانوں کے ذریعے دی جاتی ہیں۔ اِس طرح بھیڑوں کو واضح رہنمائی ملتی ہے۔
۱۰. جب کوئی بہن یا بھائی کلیسیا سے دُور ہو جاتا ہے تو بزرگوں پر کونسی ذمےداری عائد ہوتی ہے؟
(یعقوب ۵:۱۴، ۱۵ کو پڑھیں۔) اِن میں سے بعض بہنبھائی شاید کلیسیا سے دُور چلے گئے ہیں اور خدا کی خدمت نہیں کر رہے۔ ایسی صورت میں بزرگ اِن بھیڑوں کو ڈھونڈنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور اُنہیں ترغیب دیتے ہیں کہ وہ ریوڑ کی طرف لوٹ آئیں۔ یسوع مسیح نے کہا: ”تمہارا آسمانی باپ یہ نہیں چاہتا کہ اِن چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو۔“—متی ۱۸:۱۲-۱۴۔
۱۰ بزرگوں کی ذمےداری ہے کہ وہ کلیسیا کے بہنبھائیوں کی دیکھبھال اور حفاظت کریں، خاص طور پر اُن بہنبھائیوں کی جن کا ایمان کمزور پڑ گیا ہے یا جنہوں نے کوئی سنگین غلطی کی ہے۔بزرگوں کی غلطیوں کے باوجود اُن کے فرمانبردار رہیں
۱۱. بعض بہنبھائیوں کو بزرگوں کی بات ماننا مشکل کیوں لگتا ہے؟
۱۱ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح بےعیب ہیں۔ اُن جیسا چرواہا کوئی اَور نہیں ہو سکتا۔ لیکن اُنہوں نے جن اِنسانوں کو اپنی بھیڑوں کی نگہبانی کرنے کے لئے مقرر کِیا ہے، وہ بےعیب نہیں ہیں۔ اِس وجہ سے بعض بہنبھائی شاید بزرگوں کی رہنمائی کو قبول کرنا مشکل پاتے ہیں۔ وہ شاید سوچیں: ”بزرگ بھی تو ہماری طرح خطاکار ہیں، ہم اُن کی بات کیوں مانیں؟“ یہ سچ ہے کہ بزرگ خطاکار ہیں لیکن ہمیں اُن کی غلطیوں اور کمزوریوں پر توجہ نہیں دینی چاہئے۔
۱۲، ۱۳. (الف) ماضی میں خدا نے جن لوگوں کو ذمےداریاں دیں، اُن میں سے بعض نے کونسی غلطیاں کیں؟ (ب) یہوواہ خدا نے اپنے اُن بندوں کی غلطیوں کو پاک کلام میں کیوں لکھوایا جن کو اُس نے اِختیار بخشا تھا؟
۱۲ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ماضی میں یہوواہ خدا نے جن اشخاص کو اپنی قوم کی رہنمائی کرنے کے لئے چنا تھا، اُن سے بھی غلطیاں ہوئی تھیں۔ مثال کے طور پر یہوواہ خدا نے داؤد کو بنیاِسرائیل کا بادشاہ بنایا۔ پھر بھی اُنہوں نے حرامکاری اور قتل جیسے سنگین جُرم کئے۔ (۲-سمو ۱۲:۷-۹) اِس کے علاوہ پطرس رسول کو کلیسیا میں بڑی ذمےداری دی گئی تھی۔ لیکن اُنہوں نے بھی سنگین غلطیاں کیں۔ (متی ۱۶:۱۸، ۱۹؛ یوح ۱۳:۳۸؛ ۱۸:۲۷؛ گل ۲:۱۱-۱۴) آدم اور حوا کے بعد سوائے یسوع مسیح کے اَور کوئی بےعیب اِنسان دُنیا میں نہیں آیا۔
۱۳ یہوواہ خدا نے اُن اشخاص کی غلطیوں کو اپنے کلام میں کیوں لکھوایا جن کو اُس نے ذمےداریاں سونپی تھیں؟ وہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنے لوگوں کی رہنمائی کرنے کے لئے عیبدار اِنسانوں کو اِستعمال کر سکتا ہے۔ دراصل وہ ہمیشہ سے ہی ایسا کرتا آیا ہے۔ اِس لئے ہمیں بزرگوں کی غلطیوں کو بہانہ بنا کر اُن کے خلاف باتیں نہیں کرنی چاہئیں اور نہ ہی اُن کی نافرمانی کرنی چاہئے۔ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُن کی عزت کریں اور اُن کی بات مانیں۔—خروج ۱۶:۲، ۸ کو پڑھیں۔
۱۴، ۱۵. ماضی میں خدا نے اپنے لوگوں کو جس طرح ہدایات دیں، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
۱۴ آجکل بھی بزرگوں کی فرمانبرداری کرنا بہت اہم ہے۔ ذرا سوچیں کہ ماضی میں خدا نے اپنے لوگوں کو مصیبت سے بچانے کے لئے کس طرح ہدایات دی تھیں۔ جب بنیاِسرائیل ملک مصر سے نکلنے والے تھے تو خدا نے موسیٰ اور ہارون کے ذریعے اُن کو ہدایات دی تھیں۔ دسویں آفت سے بچنے کے لئے اِسرائیلیوں کو ہدایت کے مطابق خاص کھانے کا بندوبست کرنا تھا اور اپنے دروازوں پر برّے کا خون لگانا تھا۔ یہ ہدایت خدا نے خود آسمان سے بول کر نہیں دی تھی۔ اُس نے موسیٰ کو، موسیٰ نے قوم کے بزرگوں کو اور پھر بزرگوں نے باقی لوگوں کو یہ ہدایت پہنچائی تھی۔ (خر ۱۲:۱-۷، ۲۱-۲۳، ۲۹) یوں یہوواہ خدا نے موسیٰ اور بزرگوں کو اپنی قوم کی رہنمائی کرنے کے لئے اِستعمال کِیا۔ آج وہ کلیسیا کے رُکنوں کو ہدایات فراہم کرنے کے لئے بزرگوں کو اِستعمال کرتا ہے۔
۱۵ بہت سے اَور موقعوں پر بھی خدا نے اپنے بندوں کی جان بچانے کے لئے اُنہیں دوسروں کے ذریعے معلومات دیں۔ اُس نے فرشتوں یا اِنسانوں کو اِختیار سونپا کہ وہ اُس کے نام سے کلام
کریں اور اُس کے بندوں کو بتائیں کہ مصیبت سے بچنے کے لئے اُنہیں کیا کرنا چاہئے۔ ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہرمجِدّون سے بچنے کے سلسلے میں بھی کچھ ایسا ہی اِنتظام کرے گا۔ بزرگوں کو خبردار رہنا چاہئے کہ وہ کبھی بھی اپنے اِختیار کا غلط اِستعمال نہ کریں جو اُنہیں یہوواہ خدا اور اُس کی تنظیم نے دیا ہے۔”ایک ہی گلّہ اور ایک ہی چرواہا“
۱۶. ہمیں کس آواز پر دھیان دینا چاہئے؟
۱۶ یہوواہ خدا کے لوگ ’ایک ہی گلے‘ کی بھیڑیں ہیں اور اُن کا ”ایک ہی چرواہا“ ہے یعنی یسوع مسیح۔ (یوح ۱۰:۱۶) اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ ”دُنیا کے آخر تک ہمیشہ“ اپنے شاگردوں کے ساتھ رہیں گے۔ (متی ۲۸:۲۰) بائبل میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانے میں واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگا جس کا انجام ہرمجِدّون کی جنگ ہوگی۔ یسوع مسیح اِس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ واقعات ہوں۔ شیطان کی چالوں سے بچنے اور کلیسیا میں اِتحاد کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اُس آواز پر دھیان دیں جو ’ہمارے کان ہمارے پیچھے سے سنتے ہیں۔‘ اِس ”آواز“ سے مراد وہ باتیں ہیں جو روحُالقدس کے ذریعے پاک کلام میں لکھی گئی ہیں۔ اِس میں وہ باتیں بھی شامل ہیں جو یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کلیسیا کے بزرگوں کے ذریعے ہم تک پہنچاتے ہیں۔—یسعیاہ ۳۰:۲۱؛ مکاشفہ ۳:۲۲ کو پڑھیں۔
۱۷، ۱۸. (الف) خدا کی بھیڑیں کس خطرے میں ہیں لیکن ہم کیا یقین رکھ سکتے ہیں؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کس سوال پر بات کریں گے؟
۱۷ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ شیطان ”شیرببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔“ (۱-پطر ۵:۸) ایک درندے کی طرح شیطان اِس تاک میں ہے کہ جیسے ہی خدا کے گلے سے کوئی بھیڑ دُور ہو یا پھر کوئی بھیڑ کمزور ہو تو وہ اُس پر جھپٹ پڑے۔ اِس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے گلے اور چرواہے کے قریب رہیں۔ (۱-پطر ۲:۲۵) بڑی مصیبت سے بچنے والوں کے بارے میں مکاشفہ ۷:۱۷ میں لکھا ہے: ”برّہ [یعنی یسوع مسیح] . . . اُن کی گلّہبانی کرے گا اور اُنہیں آبِحیات کے چشموں کے پاس لے جائے گا اور خدا اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔“ اِس سے بڑی نعمت اَور کیا ہو سکتی ہے!
۱۸ ہم نے سیکھ لیا ہے کہ کلیسیا کے بزرگ ایک بہت ہی اہم کردار نبھا رہے ہیں۔ لہٰذا اب سوال یہ ہے کہ وہ اِس کردار کو اچھی طرح کیسے نبھا سکتے ہیں؟ اِس سوال پر ہم اگلے مضمون میں بات کریں گے۔