آپ عمررسیدہ اشخاص کی اچھی دیکھبھال کیسے کر سکتے ہیں؟
”اَے بچو! ہم کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی محبت کریں۔“—۱-یوح ۳:۱۸۔
۱، ۲. (الف) بعض خاندانوں کو کن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے؟ اور اُن کے سامنے کونسا سوال کھڑا ہوتا ہے؟ (ب)سب گھر والے اُن مشکلات سے نپٹنے کے لیے پہلے سے منصوبے کیسے بنا سکتے ہیں جو بڑھاپے میں والدین پر آئیں گی؟
والدین کو بڑھاپے کے اثرات سے لڑتے دیکھ کر بچوں کو بہت دُکھ ہوتا ہے۔ اُن کے والدین پہلے صحتمند ہوتے تھے اور اپنا ہر کام خود کرتے تھے لیکن اب وہ دوسروں کے سہارے کے محتاج ہیں۔ شاید ماں یا باپ میں سے کوئی گِر گیا ہے اور اُس کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے یا اُسے کوئی سنگین بیماری ہو گئی ہے۔ یا پھر اُس کی ذہنی حالت کچھ ٹھیک نہیں اور وہ بِلاوجہ گھر سے نکل کر اِدھر اُدھر گھومتا رہتا ہے۔ والدین کے لیے بھی یہ بات تسلیم کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ اب اُن کی صحت اور اُن کے حالات پہلے جیسے نہیں رہے اِس لیے اب اُنہیں کسی حد تک دوسروں کی مدد کی ضرورت ہے۔ (ایو ۱۴:۱) ایسی صورت میں عمررسیدہ والدین کی دیکھبھال کیسے کی جا سکتی ہے؟
۲ بوڑھے اشخاص کی دیکھبھال کے بارے میں ایک مضمون میں بتایا گیا: ”والدین کے ساتھ بڑھاپے کے مسائل پر بات کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن جب گھر والے مل کر اِن پر پہلے سے غور کرتے ہیں تو وہ مستقبل میں اِن سے نپٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔“ یاد رکھیں کہ بڑھاپے کے مسائل سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ اِس لیے یہ بہت اہم ہے کہ سب گھر والے والدین کی دیکھبھال کے سلسلے میں پہلے سے منصوبے بنائیں۔ لیکن وہ ایسے منصوبے بنانے میں ایک دوسرے سے تعاون کیسے کر سکتے ہیں؟ آئیں، اِس سلسلے میں چند تجاویز پر غور کریں۔
’بُرے دنوں‘ کے لیے تیاری کریں
۳. جب عمررسیدہ والدین کو زیادہ مدد کی ضرورت ہو تو گھر والوں کو کیا کرنا چاہیے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
۳ زیادہتر عمررسیدہ اشخاص پر ایسا وقت آتا ہے جب وہ خود اپنا خیال نہیں رکھ سکتے اور اُنہیں دوسروں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ (واعظ ۱۲:۱-۷ کو پڑھیں۔) جب ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو سب گھر والوں کو اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ والدین کو کس طرح کی مدد کی ضرورت ہے اور اِسے فراہم کرنے کے اخراجات کیا ہوں گے۔ یہ اچھا ہوگا کہ وہ مل بیٹھ کر بات کریں کہ والدین کو سنبھالنے کے سلسلے میں وہ ایک دوسرے سے تعاون کیسے کر سکتے ہیں۔ سب کو اپنی رائے کا اِظہار کرنا چاہیے خصوصاً والدین کو اپنی ضروریات اور احساسات کے بارے میں کُھل کر بتانا چاہیے۔ اور پھر اُنہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا کرنا ممکن ہے اور کیا نہیں۔ شاید بچے اپنے گھر میں کچھ تبدیلیاں کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں تاکہ بوڑھے ماںباپ کو گھر میں کوئی دقت نہ ہو۔ * یا وہ اِس بارے میں بات کر سکتے ہیں کہ والدین کی دیکھبھال کے سلسلے میں خاندان کا ہر فرد کیا کر سکتا ہے۔ (امثا ۲۴:۶) مثال کے طور پر کچھ افراد ہر روز والدین کی دیکھبھال کر سکتے ہیں جبکہ بعض افراد والدین کے اخراجات اُٹھا سکتے ہیں۔ بچوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ ماںباپ کو سنبھالنے کے سلسلے میں کس کی کیا ذمےداری ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ وقت کے ساتھساتھ اُن کی ذمےداری بدل جائے۔ اور اُنہیں کچھ ذمےداریاں باریباری نبھانی پڑیں۔
۴. عمررسیدہ والدین کی دیکھبھال کرنے کے سلسلے میں گھر والے کہاں سے مدد حاصل کر سکتے ہیں؟
۴ جب آپ والدین کی دیکھبھال کرنا شروع کرتے ہیں تو اُن کی حالت کو اچھی طرح جاننے کی کوشش کریں۔ اگر ماں یا باپ کو کوئی ایسی بیماری ہے جو وقت کے ساتھساتھ بگڑ جائے گی تو یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آئندہ صورتحال کیسی ہو سکتی ہے۔ (امثا ۱:۵) ایسے حکومتی اِداروں سے رابطہ کریں جو عمررسیدہ لوگوں کے لیے کچھ خدمات فراہم کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ یہ معلوم کریں کہ آپ کے علاقے میں اَور کونسے اِنتظامات ہیں جن کی بدولت آپ کے والدین کی بہتر طور پر دیکھبھال ہو سکتی ہے اور اُن کو سنبھالنے میں آپ کی بھی کچھ مدد ہو سکتی ہے۔ والدین کے بڑھاپے کی وجہ سے آپ کے خاندان کے حالات میں جو تبدیلی آتی ہے، اُس سے آپ مایوسی اور پریشانی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں کسی قریبی دوست کے ساتھ بات کریں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ یہوواہ خدا کے حضور اپنے احساسات کا اِظہار کریں۔ وہی آپ کو ایسا اِطمینان دے سکتا ہے جو ہر طرح کی صورتحال سے نپٹنے میں آپ کی مدد کرے گا۔—زبور ۵۵:۲۲؛ امثا ۲۴:۱۰؛ فل ۴:۶، ۷۔
۵. پہلے سے اِس بات پر غور کرنا کیوں اچھا ہوگا کہ والدین کی دیکھبھال کے حوالے سے کونسے طریقے اِختیار کیے جا سکتے ہیں؟
۵ بعض عمررسیدہ اشخاص اور اُن کے گھر والے پہلے سے سوچبچار کرتے ہیں کہ وہ دیکھبھال کے حوالے سے کونسے طریقے اِختیار کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر والدین اپنے کس بیٹے یا بیٹی کے پاس رہ سکتے ہیں؟ یا پھر کیا اُن کے علاقے میں بوڑھے لوگوں کی دیکھبھال کے حوالے سے کوئی ایسی سہولت ہے جس سے فائدہ حاصل کِیا جا سکتا ہے؟ اِن باتوں پر غور کرنے سے والدین اور اُن کے بچے پہلے سے تکلیفوں اور ”غم“ کو بھانپ لیتے ہیں اور اِن سے نپٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ (زبور ۹۰:۱۰) لیکن بہت سے خاندان والدین کو سنبھالنے کے بارے میں پہلے سے کوئی منصوبہ نہیں بناتے۔ اِس لیے اُنہیں ضرورت پڑنے پر جلدیجلدی فیصلے اور اِنتظام کرنے پڑتے ہیں۔ ایک عالم نے کہا: ”ایسا وقت اہم فیصلے لینے کے لیے صحیح نہیں ہوتا۔“ ایسی افراتفری کے ماحول میں گھر والے اکثر پریشان ہوتے ہیں اور اُن میں اِختلافات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اِس کے برعکس جو گھر والے پہلے سے منصوبے بناتے ہیں، اُن کے لیے مشکل گھڑی سے نپٹنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔—امثا ۲۰:۱۸۔
۶. عمررسیدہ والدین کی رہائش کے حوالے سے پہلے سے منصوبے بنانا کیوں فائدہمند ہے؟
۶ شاید آپ کو اپنے ماںباپ کے ساتھ یہ بات کرنا عجیب لگے کہ اُن کی رہائش کے حوالے سے کونسی تبدیلیاں کرنا ضروری ہے۔ کچھ خاندانوں نے بتایا کہ اِس معاملے پر پہلے سے بات کرنے سے اُنہیں بہت فائدہ ہوا۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ کیونکہ مشکل وقت آنے سے پہلے اہم معاملات پر باتچیت کرنا اور منصوبے بنانا آسان ہوتا ہے۔ خوشگوار ماحول میں سب گھر والے ایک دوسرے کے قریب محسوس کرتے ہیں اور کُھل کر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ عمررسیدہ والدین چاہیں کہ جب تک ممکن ہے، وہ اکیلے رہیں۔ لیکن وہ اپنے بچوں کو بتا سکتے ہیں کہ اگر کوئی مشکل پیدا ہوئی تو اُنہیں کس قسم کی مدد کی ضرورت ہوگی۔ ایسی باتچیت سے والدین اور بچوں دونوں کو فائدہ ہوگا۔
۷، ۸. والدین اور بچوں کو کن معاملات کے بارے میں باتچیت کرنی چاہیے؟ اور کیوں؟
۷ والدین اپنے بچوں کو بتا سکتے ہیں کہ رہائش اور دیکھبھال کے حوالے سے اُن کی خواہشات کیا ہیں اور وہ اِس سلسلے میں خود کتنے اخراجات اُٹھا سکتے ہیں۔ اگر مستقبل میں آپ اِن معاملات کے بارے میں فیصلہ کرنے کے قابل نہیں رہتے تو آپ کے بچے آپ کے لیے کوئی اچھا فیصلہ کر سکیں گے۔ یقیناً وہ آپ کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اِس بات کا خیال رکھیں گے کہ جہاں تک ممکن ہو آپ دوسروں پر اِنحصار نہ کریں۔ (افس ۶:۲-۴) یاد رکھیں کہ آپ کی رہائش اور دیکھبھال کے سلسلے میں آپ کے گھر والوں کی رائے آپ کی رائے سے فرق ہو سکتی ہے۔ اور آپ دونوں کو کسی بات پر متفق ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
۸ جب والدین اور بچے دیکھبھال کے حوالے سے آپس میں باتچیت کرتے ہیں اور منصوبے بناتے ہیں تو وہ بہت سے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔ (امثا ۱۵:۲۲) والدین کو اپنے بچوں کو بتانا چاہیے کہ علاج معالجے کے سلسلے میں اُن کا فیصلہ کیا ہے۔ اُنہیں خاص طور پر اُن نکات پر بات کرنی چاہیے جو یہوواہ کے گواہوں کی پیشگی ہدایات کی دستاویز میں درج ہیں (اِس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ہمیں ہنگامی صورتحال میں خون نہ لگایا جائے)۔ ہر شخص کا یہ حق ہے کہ اُسے پہلے سے بتایا جائے کہ اُس کی بیماری کے لیے کونسا علاج دستیاب ہے۔ اور وہ یہ فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے کہ وہ کونسا علاج قبول کرے گا اور کونسا رد کرے گا۔ وہ پیشگی ہدایات کی دستاویز میں بتا سکتا ہے کہ علاج معالجے کے سلسلے اُس کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر قانون اِجازت دے تو آپ کسی شخص کو مقرر کر سکتے ہیں جو ضرورت پڑنے پر علاج معالجے کے سلسلے میں آپ کی جگہ فیصلہ کرے گا۔ پیشگی ہدایات کی دستاویز کی کاپی عمررسیدہ اشخاص، اُن کی دیکھبھال کرنے والوں اور اُس شخص کے پاس ہونی چاہیے جسے فیصلہ کرنے کے لیے مقرر کِیا گیا ہے کیونکہ اِس دستاویز کی ضرورت کسی بھی وقت پڑ سکتی ہے۔ بعض عمررسیدہ اشخاص اِس دستاویز کی کاپی اپنی وصیت اور دیگر ضروری کاغذات کے ساتھ رکھتے ہیں جیسے کہ اِنشورنس اور بنک کے کاغذات یا پھر حکومتی اِداروں کے پتوں اور ٹیلیفون نمبروں کی فہرست۔
جب والدین کی حالت زیادہ بگڑ جائے
۹، ۱۰. کس صورت میں بچوں کو والدین کا زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہو سکتی ہے؟
۹ اکثر سب گھر والوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ والدین کے لیے جتنا ممکن ہو، وہ اپنے روزمرہ کے کام خود کریں۔ شاید وہ خود کھانا پکا سکتے ہیں، صفائی کر سکتے ہیں اور اپنی دوائی وغیرہ خود کھا سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ شاید وہ کسی مشکل کے بغیر دوسروں کو اپنی بات سمجھا سکتے ہیں۔ اِس طرح بچوں کو ماںباپ کی زندگی کے ہر معاملے کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا پڑے گا۔ لیکن اگر وقت کے ساتھساتھ ماںباپ زیادہ چلپھر نہیں سکتے، اکیلے گھر سے باہر نہیں جا سکتے یا پھر اُن کی یادداشت بہت کمزور ہو گئی ہے تو اِس صورت میں بچوں کو والدین کا زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
۱۰ بڑھاپے کی وجہ سے اکثر لوگ افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اُن کی نظر، سماعت، یادداشت کمزور ہو جاتی ہے اور شاید وہ پاخانے اور پیشاب پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ بڑھاپے میں بھی ایسی بیماریوں کا علاج ممکن ہے اِس لیے اگر کوئی ایسا مسئلہ پیدا ہو جائے تو ڈاکٹر سے رُجوع کریں۔ اِس سلسلے میں شاید بچوں کو ہی کوئی قدم اُٹھانا پڑے۔ وقت کے ساتھساتھ شاید بچوں کو وہ کام بھی اپنے ہاتھ میں لینے پڑیں جو والدین پہلے خود کرتے تھے۔ بچے ماںباپ کے اچھے علاج معالجے کا اِنتظام کر سکتے ہیں۔ وہ ماںباپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جا سکتے ہیں، ڈاکٹر کو اُن کی حالت کے بارے میں بتا سکتے ہیں اور اُن کے لیے ہسپتال کے فارم بھر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔—امثا ۳:۲۷۔
۱۱. آپ کیا بندوبست کر سکتے ہیں تاکہ والدین جلدی تبدیلیوں کے عادی ہو جائیں؟
۱۱ اگر والدین کی بیماری کا علاج نہیں ہو سکتا تو اُن کی رہائش اور دیکھبھال کے اِنتظام میں کچھ تبدیلیاں کرنی پڑ سکتی ہیں۔ تبدیلیاں جتنی چھوٹی ہوں گی اُتنی ہی جلدی والدین اِن کے عادی ہو جائیں گے۔ اگر آپ اپنے والدین سے دُور رہتے ہیں تو کیا کوئی یہوواہ کا گواہ یا کوئی پڑوسی باقاعدگی سے آپ کے والدین سے ملنے جا سکتا ہے اور پھر آپ کو یا آپ کی کسی بہن یا بھائی کو والدین کی حالت کے بارے میں بتا سکتا ہے؟ کیا والدین کو صرف کھانا پکانے اور صفائی کے لیے مدد کی ضرورت ہے؟ کیا گھر میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں کرنے سے والدین کے لیے چلنا پھرنا یا نہانا وغیرہ آسان ہو سکتا ہے؟ اگر والدین اکیلے رہنا چاہتے ہیں تو شاید یہی بندوبست کرنا کافی ہوگا کہ کوئی نرس ہر روز کچھ وقت کے لیے اُن کی دیکھبھال کرنے آئے۔ لیکن اگر اُن کا اکیلے رہنا خطرناک ہے تو شاید اُنہیں مستقل دیکھبھال کی ضرورت پڑے۔ صورتحال چاہے کچھ بھی ہو، یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آپ کے علاقے میں عمررسیدہ اشخاص کی دیکھبھال کے سلسلے میں کونسی سہولیات اور خدمات دستیاب ہیں۔ *—امثال ۲۱:۵ کو پڑھیں۔
دیکھبھال کرنے کی مشکلات سے کیسے نپٹیں؟
۱۲، ۱۳. جو بچے اپنے والدین سے دُور رہتے ہیں، وہ اُن کی دیکھبھال کیسے کرتے ہیں؟
۱۲ چونکہ بچے اپنے ماںباپ سے محبت رکھتے ہیں اِس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے ماںباپ محفوظ رہیں اور اُنہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو۔ جب بچوں کو یہ پتہ ہو کہ اُن کے والدین کی اچھی دیکھبھال ہو رہی تو اُنہیں اِطمینان ملتا ہے۔ بہت سے بچے مختلف ذمےداریوں کی وجہ سے اپنے عمررسیدہ والدین سے دُور رہتے ہیں۔ اُن میں سے بعض کبھیکبھار اپنے کام سے چھٹی لے کر اپنے والدین سے ملنے جاتے ہیں۔ اِس دوران وہ اپنے ماںباپ کی دیکھبھال کرتے ہیں اور اُن کے لیے ایسے کام کرتے ہیں جو اب وہ خود نہیں کر سکتے۔ اِس کے علاوہ جب بچے باقاعدگی سے یا اگر ممکن ہو تو ہر روز ماںباپ کو فون کرتے ہیں یا ایمیل کرتے یا خط لکھتے ہیں تو اِس سے والدین کو احساس ہوتا ہے کہ اُن کے بچے اُن سے پیار کرتے ہیں۔—امثا ۲۳:۲۴، ۲۵۔
۱۳ چاہے آپ اپنے والدین سے دُور رہتے ہیں یا اُن کے ساتھ، آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آپ کے والدین کو ہر روز کس طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کے ماںباپ یہوواہ کے گواہ ہیں تو آپ اُن کی ضروریات کے حوالے سے اُن کی کلیسیا کے بزرگوں سے مشورہ کر سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اِس معاملے کے بارے میں دُعا کریں۔ (امثال ۱۱:۱۴ کو پڑھیں۔) لیکن اگر آپ کے والدین یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں تو بھی ”اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا“ آپ کا فرض ہے۔ (خر ۲۰:۱۲؛ امثا ۲۳:۲۲) سچ ہے کہ والدین کی دیکھبھال کے بارے میں ہر خاندان فرقفرق بندوبست کرے گا۔ بعض بچے اپنے ماںباپ کو یا تو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں یا پھر اپنے قریب اُن کی رہائش کا بندوبست کرتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ بعض والدین اکیلے رہنا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔ شاید اُن کی مالی حالت کچھ اچھی ہے اِس لیے وہ اپنی دیکھبھال کے لیے کسی نرس کی خدمات لے سکتے ہیں اور اپنے ہی گھر میں رہنے کا اِنتخاب کر سکتے ہیں۔—واعظ ۷:۱۲۔
۱۴. گھر کا جو فرد ماںباپ کی دیکھبھال کی زیادہ ذمےداری اُٹھائے ہوئے ہے، اُسے کن مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے؟
۱۴ بہت سے خاندانوں میں ماںباپ کی دیکھبھال کی زیادہ ذمےداری اُس بیٹی یا بیٹے کے سر پر آن پڑتی ہے جو اُن کے ساتھ یا اُن کے قریب رہتا ہے۔ لیکن اُسے ماںباپ کی دیکھبھال کرنے کی وجہ سے اپنے خاندان کی ضروریات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہر شخص کو سمجھداری سے فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے قیمتی وقت اور قوت کو کیسے اِستعمال کرے گا۔ اِس کے علاوہ دیکھبھال کرنے والے کے حالات میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے جس کی وجہ سے سب بچوں کو ماںباپ کا خیال رکھنے کے بندوبست پر پھر سے غور کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیا گھر کا کوئی ایک فرد حد سے زیادہ ذمےداری اُٹھائے ہوئے ہے؟ کیا دوسرے افراد اُس کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں؟ کیا وہ کچھ ذمےداریاں باریباری نبھا سکتے ہیں؟
۱۵. عمررسیدہ اشخاص کی دیکھبھال کرنے والے تھکاوٹ کا شکار ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
۱۵ جب کسی بچے کو اپنے عمررسیدہ والدین کی مسلسل دیکھبھال کرنی پڑتی ہے تو وہ جسمانی اور ذہنی طور پر تھکاوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ (واعظ ۴:۶) جو بچے اپنے ماںباپ سے پیار کرتے ہیں، وہ اُن کی اچھی دیکھبھال کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ لگاتار دیکھبھال کرنے سے اُکتا جائیں۔ ایسی صورت میں بچوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ صرف اُتنا ہی کر سکتے ہیں جتنا اُن کے بس میں ہے۔ اِس ذمےداری کو پورا کرنے میں وہ دوسروں کی مدد لے سکتے ہیں۔ اگر بچوں کو وقتاًفوقتاً مدد ملتی ہے تو وہ اپنے ماںباپ کی دیکھبھال جاری رکھ سکیں گے اور اُنہیں والدین کو کسی ایسی جگہ پر نہیں رکھنا پڑے گا جہاں بوڑھے لوگوں کی دیکھبھال کی جاتی ہے۔
۱۶، ۱۷. عمررسیدہ والدین کی دیکھبھال کے دوران بچوں کو کن مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے؟ اور وہ اُن سے کیسے نپٹ سکتے ہیں؟ (بکس ”ماںباپ کی دیکھبھال کرنا ایک اعزاز ہے“ کو بھی دیکھیں۔)
۱۶ والدین کو بڑھاپے کے اثرات سے لڑتے ہوئے دیکھ کر بچوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دیکھبھال کرنے والے بچے غمگین، پریشان یا مایوس ہو جائیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ غصے، ناراضگی یا پشیمانی جیسے احساسات سے دوچار رہیں۔ بعض اوقات عمررسیدہ والدین تلخ باتیں کہہ دیتے ہیں یا پھر بچوں کی خدمت کے لیے ناقدری ظاہر کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو بُرا نہ مانیں۔ ایک ماہرِنفسیات نے کہا کہ اگر آپ کے دل میں کوئی بُرا احساس پیدا ہو تو اِس بات سے اِنکار نہ کریں کہ آپ میں یہ احساس ہے۔ اور اِس کی وجہ سے خود کو کوستے نہ رہیں۔ اپنے جیونساتھی، گھر کے کسی فرد یا کسی قریبی دوست سے اِس کے بارے میں بات کریں۔ ایسا کرنے سے آپ سمجھ سکیں گے کہ ایسے احساسات کسی حد تک فطرتی ہیں۔ یوں آپ زیادہ بُرا محسوس نہیں کریں گے۔
۱۷ کبھیکبھار ایسا وقت بھی آتا ہے کہ کسی عمررسیدہ شخص کی دیکھبھال گھر پر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں شاید اُنہیں کسی نرسنگہوم میں رکھنا پڑے (یعنی کسی ایسے اِدارے میں جہاں بوڑھوں کی دیکھبھال کی جاتی ہے)۔ ایک بہن جس نے اپنی ماں کو نرسنگہوم میں رکھا، وہ تقریباً ہر روز اپنی ماں سے ملنے وہاں جاتی تھی۔ وہ بہن کہتی ہے: ”ہمارے لیے امی کی ۲۴ گھنٹے دیکھبھال کرنا ممکن نہیں تھا۔ اُنہیں کسی نرسنگہوم میں رکھنے کا فیصلہ کرنا بڑا ہی مشکل تھا کیونکہ یہ ہم سب کے لیے بڑے دُکھ کی بات تھی۔ لیکن اُن کی زندگی کے آخری مہینوں میں اُنہیں نرسنگہوم میں رکھنا ہی بہتر تھا۔ اور یہ بات امی بھی مانتی تھیں۔“
۱۸. عمررسیدہ والدین کی دیکھبھال کرنے والے بچے کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟
۱۸ عمررسیدہ والدین کی دیکھبھال کرنا نہ صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ ماںباپ کو تکلیف میں دیکھ کر بچوں کو دُکھ بھی ہوتا ہے۔ عمررسیدہ اشخاص کی دیکھبھال کرنے کے فرقفرق طریقے ہیں۔ لیکن جب گھر والے اِس سلسلے میں کُھل کر باتچیت کرتے ہیں، پہلے سے منصوبے بناتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور یہوواہ خدا سے دُعا کرتے ہیں تو وہ عمررسیدہ والدین کی دیکھبھال کی ذمےداری کو اچھی طرح نبھا سکیں گے۔ اِس طرح بچوں کو یہ تسلی رہتی ہے کہ اُن کے والدین کو پوری توجہ مل رہی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۴-۸ کو پڑھیں۔) اُنہیں ایسا اِطمینان بھی حاصل ہوتا ہے جو یہوواہ خدا والدین کی عزت اور قدر کرنے والوں کو دیتا ہے۔—فل ۴:۷۔
^ پیراگراف 3 بعض ملکوں میں یہ رواج ہے کہ والدین اپنے بچوں سے الگ رہتے ہیں مگر اُن کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ اِس کا اُن کی دیکھبھال کرنے کے فیصلے پر اثر پڑ سکتا ہے۔
^ پیراگراف 11 اگر والدین اکیلے رہتے ہیں تو اُن کی دیکھبھال کرنے والے شخص کو گھر کی چابیاں دے دیں تاکہ کسی ہنگامی صورتحال میں وہ گھر میں داخل میں ہو سکے۔ ظاہری بات ہے کہ آپ چابیاں اُسی شخص کو دیں جس پر آپ کو پورا بھروسا ہے۔