”سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ رکھو“
”سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ رکھو“
”جہاں تک ہو سکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ رکھو۔“—روم ۱۲:۱۸۔
۱، ۲. (ا) یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو کونسی آگاہی دی؟ (ب) ہم مخالفین کے ساتھ برتاؤ کے سلسلے میں راہنمائی کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟
یسوع مسیح نے اپنی موت سے پہلے اپنے رسولوں کو آگاہ کِیا: ”اگر تُم دُنیا کے ہوتے تو دُنیا اپنوں کو عزیز رکھتی لیکن چُونکہ تُم دُنیا کے نہیں بلکہ مَیں نے تُم کو دُنیا میں سے چن لیا ہے اِس واسطے دُنیا تُم سے عداوت رکھتی ہے۔“ (یوح ۱۵:۱۹) یہاں یسوع نے اُنہیں نہ صرف یہ بتایا کہ اُن کی مخالفت کی جائے گی بلکہ یہ بھی بتایا کہ اُن کے ساتھ ایسا کیوں ہوگا۔
۲ پولس رسول اپنے تجربے سے جانتا تھا کہ یسوع کے الفاظ بالکل سچ تھے۔ نوجوان تیمتھیس کے نام اپنے دوسرے خط میں پولس رسول نے لکھا: ”تُو نے تعلیم۔ چالچلن۔ ارادہ۔ ایمان۔ تحمل۔ محبت۔ صبر۔ ستائے جانے اور دُکھ اٹھانے میں میری پیروی کی۔“ اُس نے مزید کہا: ”جتنے مسیح یسوؔع میں دینداری کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں وہ سب ستائے جائیں گے۔“ (۲-تیم ۳:۱۰-۱۲) رومیوں ۱۲ باب میں پولس رسول نے روم کے مسیحیوں کو مخالفین کے ساتھ برتاؤ کے سلسلے میں ہدایت دی۔ اُس کے الفاظ اِس اخیر زمانے میں ہماری بھی راہنمائی کر سکتے ہیں۔
’اچھی باتوں کی تدبیر کریں‘
۳، ۴. (ا) رومیوں ۱۲:۱۷ کا اطلاق ایسے خاندان میں کیسے کِیا جا سکتا ہے جہاں سب افراد یہوواہ کی پرستش نہیں کرتے ہیں؟ (ب) اِس آیت کو پڑوسیوں کے ساتھ برتاؤ کے سلسلے میں کیسے لاگو کِیا جا سکتا ہے؟
۳ رومیوں ۱۲:۱۷ کو پڑھیں۔ پولس رسول نے بیان کِیا کہ جب لوگ ہمارے ساتھ بُری طرح پیش آتے ہیں تو ہمیں بدلے میں ویسا نہیں کرنا چاہئے۔ اُس کی یہ نصیحت خاص طور پر ایسے خاندانوں کے لئے اہمیت رکھتی ہے جہاں سب افراد یہوواہ کی پرستش نہیں کرتے۔ جب کسی مسیحی کا بیاہتا ساتھی اُس سے سختی سے پیش آتا ہے تو اُسے اُس کے ساتھ ویسا برتاؤ نہیں کرنا چاہئے۔ ’بدی کے عوض بدی‘ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ صورتحال اَور زیادہ خراب ہو جائے گی۔
۴ پولس رسول نے بیان کِیا: ”جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھی ہیں اُن کی تدبیر کرو۔“ آئیں دیکھیں کہ اِس آیت کا اطلاق خاندان میں کیسے کِیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک شوہر اپنی بیوی کے ایمان پر تنقید کرتا ہے امثا ۳۱:۱۲) اِس سلسلے میں بیتایل خاندان کے ایک رُکن کارلوس کے والدین کی مثال پر غور کریں۔ کارلوس بیان کرتا ہے کہ اُس کا باپ اُس کی ماں کی بہت زیادہ مخالفت کرتا تھا۔ لیکن اُس کی ماں اُس کے باپ کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے اور گھر کی اچھی دیکھبھال کرنے سے اِس مخالفت پر قابو پانے کے قابل ہوئی۔ کارلوس نے کہا: ”میری والدہ ہمیشہ ہمیں اپنے والد کی عزت کرنے کی تاکید کرتی تھیں۔ وہ اکثر مجھے اُن کے ساتھ ایک گیم کھیلنے کے لئے کہا کرتی تھیں جو مجھے ذاتی طور پر پسند نہیں تھی۔ لیکن جب مَیں اپنے والد کے ساتھ یہ گیم کھیلتا تھا تو وہ بہت خوش ہوتے تھے۔“ بالآخر میرے والد نے بائبل کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا اور بپتسمہ لے لیا۔ یہوواہ کے گواہ نہ صرف خاندان میں بلکہ پڑوسیوں کے ساتھ برتاؤ کے سلسلے میں بھی’سب لوگوں کے نزدیک اچھی باتوں کی تدبیر‘ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب اُن کے پڑوسی کسی آفت کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں تو وہ اُن کی مدد کرتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں اکثر یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں لوگوں کا نظریہ بدل جاتا ہے۔
اور وہ بدلے میں اُس سے مہربانی سے پیش آتی ہے تو بحثوتکرار سے بچا جا سکتا ہے۔ (مخالفین کے سر پر ”انگاروں کا ڈھیر“
۵، ۶. (ا) دشمن کے سر پر ”انگاروں کا ڈھیر“ لگانے کا کیا مطلب ہے؟ (ب) کوئی مقامی تجربہ بیان کریں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رومیوں ۱۲:۲۰ میں درج نصیحت پر عمل کرنے سے اچھے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
۵ رومیوں ۱۲:۲۰ کو پڑھیں۔ اِس آیت کو لکھتے وقت بِلاشُبہ پولس کے ذہن میں امثال ۲۵:۲۱، ۲۲ میں درج یہ الفاظ تھے: ”اگر تیرا دُشمن بھوکا ہو تو اُسے روٹی کھلا اور اگر وہ پیاسا ہو تو اُسے پانی پلا کیونکہ تُو اُس کے سر پر انگاروں کا ڈھیر لگائے گا اور [یہوواہ] تجھ کو اَجر دے گا۔“ رومیوں ۱۲ باب کے سیاقوسباق پر غور کرنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پولس رسول کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہم مخالفین کو سزا دینے کے لئے علامتی انگاروں کو استعمال کریں۔ اِس کے برعکس، امثال کی کتاب اور پولس کے رومیوں میں درج الفاظ غالباً کچی دھات کو پگھلا کر صاف کرنے کے قدیم طریقۂکار کا حوالہ دیتے ہیں۔ انیسویں صدی کے ایک انگریز سکالر چارلس نے بیان کِیا: ”چونکہ کچی دھات کو ڈھالنا مشکل ہوتا تھا اِس لئے اِسے نرم کرنے کے لئے بھٹی میں ڈالا جاتا تھا اور نہ صرف اِس کے نیچے بلکہ اوپر بھی انگارے رکھے جاتے تھے۔ بالکل اِسی طرح بےلوث محبت بھی لوگوں کے سخت دل کو موم کر سکتی ہے۔“
۶ جب ہم مخالفین کے لئے مہربانی دکھاتے ہیں تو یہ ”آگ کے انگاروں“ کی طرح اُن کے دل کو نرم کر سکتا ہے۔ اِس کی وجہ سے یہوواہ کے لوگوں اور بائبل کے پیغام کے لئے اُن کا نظریہ بدل سکتا ہے۔ پطرس رسول نے لکھا: ”غیرقوموں میں اپنا چالچلن نیک رکھو تاکہ جن باتوں میں وہ تمہیں بدکار جان کر تمہاری بدگوئی کرتے ہیں تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر اُنہی کے سبب سے ملاحظہ کے دن خدا کی تمجید کریں۔“—۱-پطر ۲:۱۲۔
”سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ رکھو“
۷. یسوع مسیح اپنے شاگردوں کو جو اطمینان بخشتا ہے وہ کیا ہے، اور یہ ہمارے اندر کونسی خواہش پیدا کرتا ہے؟
۷ رومیوں ۱۲:۱۸ کو پڑھیں۔ یسوع مسیح نے اپنی موت سے تھوڑی دیر پہلے اپنے شاگردوں سے کہا: ”مَیں تمہیں اطمینان دئے جاتا ہوں۔ اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں۔“ (یوح ۱۴:۲۷) یسوع مسیح اپنے شاگردوں کو جو اطمینان بخشتا ہے وہ دلی سکون ہے۔ یہ دلی سکون اُنہیں اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہوواہ خدا اور اُس کا بیٹا اُن سے محبت رکھتے ہیں اور اُنہیں اُن دونوں کی خوشنودی حاصل ہے۔ یہ دلی سکون ہمارے اندر دوسروں کے ساتھ میلملاپ رکھنے یا صلح سے رہنے کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ جیہاں، سچے مسیحی صلح کرانے والے ہیں۔—متی ۵:۹۔
۸. ہم خاندان میں اور کلیسیا میں صلح کرانے والے کیسے بن سکتے ہیں؟
۸ خاندان میں صلح کرانے کا ایک طریقہ اختلافات کو جلدازجلد ختم کرنا ہے۔ (امثا ۱۵:۱۸؛ افس ۴:۲۶) اِس بات کو مسیحی کلیسیا میں بھی لاگو کِیا جا سکتا ہے۔ پطرس رسول نے صلح کے طالب ہونے کو اپنی زبان کو قابو میں رکھنے سے منسلک کِیا۔ (۱-پطر ۳:۱۰، ۱۱) یعقوب شاگرد نے بھی زبان کو مناسب طریقے سے استعمال کرنے اور حسد اور تفرقے سے بچنے کی ضرورت پر زور دینے کے بعد لکھا: ”جو حکمت اُوپر سے آتی ہے اوّل تو وہ پاک ہوتی ہے۔ پھر ملنسار حلیم اور تربیتپذیر۔ رحم اور اچھے پھلوں سے لدی ہوئی۔ بےطرفدار اور بےریا ہوتی ہے۔ اور صلح کرانے والوں کے لئے راستبازی کا پھل صلح کے ساتھ بویا جاتا ہے۔“—یعقو ۳:۱۷، ۱۸۔
۹. ”سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ“ رکھنے کی مشورت پر عمل کرنے کے سلسلے میں ہمیں کس بات کو یاد رکھنا چاہئے؟
۹ رومیوں ۱۲:۱۸ میں پولس رسول نہ صرف خاندان اور کلیسیا میں بلکہ ”سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ“ رکھنے کی نصیحت کرتا ہے۔ اِن میں ہمارے پڑوسی، ہمارے ساتھ کام کرنے والے، ہمارے ہمجماعت اور وہ لوگ شامل ہیں جنہیں ہم مُنادی کے دوران ملتے ہیں۔ لیکن غور کریں پولس کہتا ہے: ”جہاں تک ہو سکے تم اپنی طرف سے۔“ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں ’سب کے ساتھ میل ملاپ‘ رکھنے کی کوشش تو کرنی چاہئے مگر ایسا کرنے کے لئے خدا کے اصولوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔
بدلہ لینا یہوواہ کا کام ہے
۱۰، ۱۱. (ا) ”غضب کو موقع“ دینے کا کیا مطلب ہے؟ (ب) ہمیں ایسا کیوں کرنا چاہئے؟
۱۰ رومیوں ۱۲:۱۹ کو پڑھیں۔ ہمیں سب کے ساتھ یہاں تک کہ ”مخالفوں“ کے ساتھ بھی ’بُردباری‘ اور ”حلیمی“ سے پیش آنا چاہئے۔ (۲-تیم ۲:۲۳-۲۵) پولس رسول مسیحیوں کو نصیحت کرتا ہے کہ اپنا بدلہ نہ لیں بلکہ ”غضب کو موقع“ دیں۔ یہاں پولس کس کے غضب کی طرف اشارہ کر رہا تھا؟ وہ یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ ہمیں اپنے غضب کو موقع دینا چاہئے بلکہ وہ خدا کے غضب کے متعلق بیان کر رہا تھا۔ مسیحیوں کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ بدلہ لینا ہمارا کام نہیں ہے۔ زبورنویس نے لکھا: ”قہر سے باز آ اور غضب کو چھوڑ دے۔ بیزار نہ ہو۔ اِس سے بُرائی ہی نکلتی ہے۔“ (زبور ۳۷:۸) بادشاہ سلیمان نے بھی نصیحت کی: ”تُو یہ نہ کہنا کہ مَیں بدی کا بدلہ لوں گا۔ [یہوواہ] کی آس رکھ اور وہ تجھے بچائے گا۔“—امثا ۲۰:۲۲۔
۱۱ اگر مخالفین ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں تو دانشمندی کی بات یہ ہوگی کہ معاملے کو یہوواہ پر چھوڑ دیں تاکہ وہ اپنے وقت پر اُن کو سزا دے۔ یہوواہ کے غضب کو ذہن میں رکھتے ہوئے پولس رسول نے مزید بیان کِیا: ”[یہوواہ]فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ مَیں ہی دوں گا۔“ (استثنا ۳۲:۳۵ پر غور کریں۔) لہٰذا، بدلہ لینا ہمارا نہیں بلکہ یہوواہ کا کام ہے۔ اگر ہم خود بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم یہوواہ کے اِس وعدے پر بھروسا نہیں رکھ رہے ہوں گے کہ ”بدلہ مَیں ہی دوں گا۔“
۱۲. یہوواہ خدا کا غضب کب اور کیسے ظاہر ہوگا؟
۱۲ رومیوں کے نام اِس خط میں پولس رسول نے پہلے یہ بیان کِیا تھا: روم ۱:۱۸) یہوواہ کا غضب ”بڑی مصیبت“ کے وقت اُس کے بیٹے کے ذریعے آسمان سے ظاہر ہوگا۔ (مکا ۷:۱۴) پولس رسول نے اپنے ایک دوسرے خط میں کہا: ”یہ خدا کی سچی عدالت کا صاف نشان[ہوگا]. . . کیونکہ خدا کے نزدیک یہ انصاف ہے کہ بدلہ میں تُم پر مصیبت لانے والوں کو مصیبت۔ اور تُم مصیبت اٹھانے والوں کو ہمارے ساتھ آرام دے جب خداوند یسوؔع اپنے قوی فرشتوں کے ساتھ بھڑکتی ہوئی آگ میں آسمان سے ظاہر ہوگا۔ اور جو خدا کو نہیں پہچانتے اور ہمارے خداوند یسوؔع کی خوشخبری کو نہیں مانتے اُن سے بدلہ لے گا۔“—۲-تھس ۱:۵-۸۔
”خدا کا غضب اُن آدمیوں کی تمام بےدینی اور ناراستی پر آسمان سے ظاہر ہوتا ہے جو حق کو ناراستی سے دبائے رکھتے ہیں۔“ (نیکی کے ذریعے بدی پر غالب آئیں
۱۳، ۱۴. (ا) جب لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں تو ہم حیران کیوں نہیں ہوتے؟ (ب) اپنے ستانے والوں کے لئے برکت چاہنے کا ایک طریقہ کیا ہے؟
۱۳ رومیوں ۱۲:۱۴، ۲۱ کو پڑھیں۔ اِس بات پر مکمل اعتماد رکھتے ہوئے کہ یہوواہ خدا اپنے مقاصد کو پورا کرے گا ہمیں ”تمام دُنیا“ میں ’بادشاہی کی خوشخبری‘ کی مُنادی کرنے کے کام میں بھرپور حصہ لینا چاہئے۔ (متی ۲۴:۱۴) ہم جانتے ہیں کہ اِس کام کی وجہ سے ہمارے دشمن غضبناک ہوں گے کیونکہ یسوع مسیح نے آگاہ کِیا: ”میرے نام کی خاطر سب قومیں تُم سے عداوت رکھیں گی۔“ (متی ۲۴:۹) لہٰذا، جب ہمیں مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو ہم حیران اور بےحوصلہ نہیں ہوتے۔ پطرس رسول نے لکھا: ”اَے پیارو! جو مصیبت کی آگ تمہاری آزمایش کے لئے تُم میں بھڑکی ہے یہ سمجھ کر اُس سے تعجب نہ کرو کہ یہ ایک انوکھی بات ہم پر واقع ہوئی ہے۔ بلکہ مسیح کے دُکھوں میں جوںجوں شریک ہو خوشی کرو تاکہ اُس کے جلال کے ظہور کے وقت بھی نہایت خوشوخرم ہو۔“—۱-پطر ۴:۱۲، ۱۳۔
۱۴ اِس بات کو سمجھتے ہوئے کہ بعض لوگ ناواقف ہونے کی وجہ سے ہماری مخالفت کرتے ہیں، ہمیں اُن سے عداوت رکھنے کی بجائے اُنہیں سچائی بتانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ (۲-کر ۴:۴) ہمیں پولس رسول کی اِس نصیحت پر عمل کرنا چاہئے: ”جو تمہیں ستاتے ہیں اُن کے واسطے برکت چاہو۔ برکت چاہو۔ لعنت نہ کرو۔“ (روم ۱۲:۱۴) مخالفین کے لئے برکت چاہنے کا ایک طریقہ اُن کے لئے دُعا کرنا ہے۔ یسوع مسیح نے اپنے پہاڑی وعظ میں کہا: ”اپنے دشمنوں سے محبت رکھو۔ جو تُم سے عداوت رکھیں اُن کا بھلا کرو۔ جو تُم پر لعنت کریں اُن کے لئے برکت چاہو۔ جو تمہاری تحقیر کریں اُن کے لئے دُعا کرو۔“ (لو ۶:۲۷، ۲۸) پولس رسول اپنے تجربے سے یہ جانتا تھا کہ ایک ستانے والا بھی مسیح کا وفادار شاگرد اور یہوواہ خدا کا پُرجوش خادم بن سکتا ہے۔ (گل ۱:۱۳-۱۶، ۲۳) کرنتھیوں کے نام اپنے پہلے خط میں پولس رسول نے تحریر کِیا: ”لوگ بُرا کہتے ہیں ہم دُعا دیتے ہیں۔ وہ ستاتے ہیں ہم سہتے ہیں۔ وہ بدنام کرتے ہیں ہم منتسماجت کرتے ہیں۔“—۱-کر ۴:۱۲، ۱۳۔
۱۵. نیکی کے ذریعے بدی پر غالب آنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟
۱۵ پس ایک سچا مسیحی رومیوں ۱۲ باب کی آخری آیت میں درج نصیحت پر عمل کرتا ہے: ”بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ۔“ تمام بدی کا ماخذ دراصل شیطان ہے۔ (یوح ۸:۴۴؛ ۱-یوح ۵:۱۹) یوحنا رسول کو دئے گئے مکاشفہ میں یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ اُس کے ممسوح بھائی ”برّہ کے خون اور اپنی گواہی کے کلام کے باعث[شیطان]پر غالب آئے۔“ (مکا ۱۲:۱۱) اِس سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان اور اُس کی دُنیا میں پائی جانے والی بدی پر غالب آنے کا بہترین طریقہ بادشاہت کی خوشخبری کی مُنادی کرتے ہوئے نیکی کرنا ہے۔
اُمید میں خوش رہیں
۱۶، ۱۷. رومیوں ۱۲ باب کے مطابق (ا) ہمیں اپنی زندگی کو کیسے استعمال کرنا چاہئے؟ (ب) ہمیں کلیسیا میں ایکدوسرے کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہئے؟ (ج) ہمیں مخالفین کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہئے؟
۱۶ رومیوں ۱۲ باب پر غور کرنے سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ یہوواہ خدا کے خادموں کے طور پر ہمیں اُس کی خدمت کے لئے قربانیاں دینے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ہم خوشی سے ایسا کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ خدا کی مرضی ہے۔ ہم رُوح میں سرگرم رہتے ہیں اور جوش سے مختلف نعمتیں استعمال کرتے ہیں۔ ہم فروتنی سے یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں اور کلیسیا میں اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم مسافرپروری میں لگے رہتے اور دوسروں کے لئے ہمدردی دکھاتے ہیں۔
۱۷ رومیوں ۱۲ باب ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہمیں مخالفین کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے۔ جب دوسرے ہم سے بُرا سلوک کرتے ہیں تو ہمیں اُن سے مہربانی سے پیش آنا چاہئے۔ بائبل کے اصولوں کی خلافورزی کئے بغیر ہمیں جہاں تک ممکن ہو سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں خاندان میں، کلیسیا میں، پڑوسیوں کے ساتھ، کام کی جگہ پر، سکول میں اور مُنادی کے دوران سب کے ساتھ میلملاپ رکھنا چاہئے۔ یہاں تک کہ جب ہمیں مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو ہمیں نیکی کے ذریعے بدی پر غالب آنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ بدلہ لینا یہوواہ کا کام ہے۔
۱۸. رومیوں ۱۲:۱۲ میں پولس رسول کن تین باتوں پر توجہ دلاتا ہے؟
۱۸ رومیوں ۱۲:۱۲ کو پڑھیں۔ اِس تمام عمدہ نصیحت کے علاوہ پولس رسول تین اَور باتوں پر توجہ دلاتا ہے۔ چونکہ ہم یہوواہ خدا کی مدد کے بغیر یہ سب کچھ نہیں کر سکتے اِس لئے پولس ہمیں ”دُعا کرنے میں مشغول“ رہنے کی تاکید کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے ہم پولس کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ”مصیبت میں صابر“ رہنے کے قابل ہوں گے۔ اِس کے علاوہ، ہمیں اپنی توجہ مستقبل پر مرکوز رکھنی چاہئے جس کا خدا نے وعدہ کِیا ہے۔ یوں ہم آسمان یاپھر زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی ”اُمید میں خوش“ رہیں گے۔
اپنی یاد کو تازہ کریں
• ہمیں مخالفین کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہئے؟
• ہمیں کن حلقوں میں صلح کرانے والے بننا چاہئے، اور ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
• ہمیں خود بدلہ کیوں نہیں لینا چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
جب ہم اپنے پڑوسیوں کی مدد کرتے ہیں تو ہمارے بارے میں اُن کا نظریہ بدل سکتا ہے
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
کیا آپ کلیسیا میں صلح کرانے والے بننے کی کوشش کرتے ہیں؟