۲. کال
۲. کال
”کال پڑیں گے۔“—مرقس ۱۳:۸۔
● ملک نائیجر میں ایک شخص اپنے گاؤں کو چھوڑ کر دارلحکومت کے قریب واقع ایک گاؤں میں آ گیا کیونکہ اُس کے علاقے میں خوراک کی شدید کمی تھی۔ اُس کے بہنبھائی اور کچھ رشتہدار بھی اُس گاؤں میں آ گئے تھے۔ لیکن وہ شخص اکیلا ہی رہ رہا تھا۔ اِس کی کیا وجہ تھی؟ گاؤں کے سردار نے اِس کی وجہ یوں بتائی: ”وہ اپنے گھر والوں کے لئے کھانے پینے کا انتظام نہیں کر سکتا اور نہ ہی اُن کو بھوک سے بلکتے ہوئے دیکھ سکتا ہے۔“
اعدادوشمار سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ پوری دُنیا میں ہر سات میں سے ایک شخص کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا۔ افریقہ کے کئی ملکوں میں تو ہر تین میں سے ایک شخص کو اکثر بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا ایک ایسے گھر کا تصور کریں جس میں ماں، باپ اور بچہ رہتے ہیں۔ اگر کھانا بس دو لوگوں کے لئے ہو تو اُن میں سے کسی ایک کو بھوکا رہنا پڑے گا۔ بہت سے گھرانوں میں ہر روز ایسی ہی صورتحال ہوتی ہے۔
لوگ کیا اعتراض کرتے ہیں؟ ہماری زمین اِتنی خوراک پیدا کرتی ہے کہ اِس پر رہنے والوں کا پیٹ آسانی سے بھرا جا سکتا ہے۔ ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ خوراک کی تقسیم کا مناسب بندوبست کِیا جائے۔
کیا یہ اعتراض درست ہے؟ بیشک آجکل کسان پہلے کی نسبت زیادہ اناج اُگا سکتے ہیں اور اِسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا بھی آسان ہو گیا ہے۔ اِس لحاظ سے تو حکومتوں کو اِس قابل ہونا چاہئے کہ خوراک کی کمی کو دُور کرنے کے لئے مناسب انتظامات کر سکیں۔ لیکن سالہاسال کی کوششوں کے باوجود وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا مرقس ۱۳:۸ کی پیشینگوئی ہمارے زمانے میں پوری ہو رہی ہے؟ کیا جدید ٹیکنالوجی کے باوجود بھی پوری دُنیا میں لوگوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے؟
زلزلے اور کال کے علاوہ وبائیں بھی آخری زمانے کی نشانی ہیں۔ اگلے مضمون میں ہم مختلف بیماریوں اور وباؤں کے بارے میں بات کریں گے۔
[صفحہ ۵ پر عبارت]
”جو بچے نمونیا اور دست جیسی بیماریوں سے مر جاتے ہیں اگر وہ خوراک کی کمی کا شکار نہ ہوں تو اُن میں سے تقریباً ۳۳ فیصد کی جان بچائی جا سکتی ہے۔“—اقوامِمتحدہ کے بچوں کے فنڈ کی سابقہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر، این ایم وینیمین۔
[صفحہ ۵ پر تصویر کا حوالہ]
Paul Lowe/Panos Pictures ©