مرنے کے بعد اِنسان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟
پاک کلام کا جواب
پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”زندہ جانتے ہیں کہ وہ مریں گے پر مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔“ (واعظ 9:5؛ زبور 146:4) لہٰذا مرنے کے بعد اِنسان کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ وہ نہ تو کچھ سوچ سکتا ہے، نہ کچھ محسوس کر سکتا ہے اور نہ ہی کچھ کر سکتا ہے۔
”تُو ... خاک میں پھر لوٹ جائے گا“
خدا نے سب سے پہلے اِنسان یعنی آدم کو بتایا کہ مرنے کے بعد اِنسان کے ساتھ کیا ہوگا۔ جب آدم نے خدا کی نافرمانی کی تو خدا نے اُن سے کہا کہ ”تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا۔“ (پیدایش 3:19) خدا نے آدم کو ”زمین کی مٹی سے ... بنایا“ تھا۔ (پیدایش 2:7) اِس سے پہلے آدم کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اور پھر جب آدم فوت ہو گئے اور خاک میں لوٹ گئے تو اُن کا وجود ختم ہو گیا۔
آج بھی جو لوگ مر جاتے ہیں، اُن کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اِنسانوں اور جانوروں کے سلسلے میں پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”سب کے سب خاک سے ہیں اور سب کے سب پھر خاک سے جا ملتے ہیں۔“—واعظ 3:19، 20۔
کیا مُردوں کے سلسلے میں کوئی اُمید ہے؟
پاک کلام میں موت کو نیند سے تشبیہ دی گئی ہے۔ (زبور 13:3؛ یوحنا 11:11-14؛ اعمال 7:60) اگر کوئی شخص گہری نیند سو رہا ہو تو اُسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اُس کے اِردگِرد کیا ہو رہا ہے۔ اِسی طرح جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو وہ ہر چیز سے بےخبر ہوتا ہے۔ لیکن پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ خدا مُردوں کو زندہ کر سکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے ایک سوئے ہوئے شخص کو نیند سے جگایا جا سکتا ہے۔ (یوحنا 5:28، 29) لہٰذا مُردوں کے سلسلے میں ہم یہ اُمید رکھ سکتے ہیں کہ خدا اُنہیں زندہ کرے گا۔