کیا پاک کلام میں اِنسان کے دوبارہ جنم لینے کی تعلیم پائی جاتی ہے؟
پاک کلام کا جواب
نہیں۔ پاک کلام میں یہ تعلیم نہیں پائی جاتی کہ مرنے کے بعد اِنسان کسی اَور رُوپ میں جنم لیتا ہے۔ اِس عقیدے کی بنیاد دراصل یہ تعلیم ہے کہ اِنسان کے اندر ایک روح ہوتی ہے جو کبھی نہیں مرتی۔ a لیکن پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ اِنسان مٹی سے بنا ہے، مرنے کے بعد اُس کا وجود بالکل ختم ہو جاتا ہے اور اُس کے اندر کوئی ایسی شے نہیں ہوتی جو اُس کی موت کے بعد زندہ رہے۔—پیدایش 2:7؛ 3:19؛ واعظ 9:5، 6؛ حِزقیایل 18:4۔
دوبارہ جنم لینے اور دوبارہ زندہ ہونے میں کیا فرق ہے؟
پاک کلام میں جب اِنسانوں کے زندہ ہونے کی بات کی جاتی ہے تو اِس کی بنیاد یہ عقیدہ نہیں ہے کہ اِنسانوں کے اندر غیرفانی روح ہوتی ہے۔ جو لوگ مر چُکے ہیں، اُنہیں مستقبل میں خدا کی طاقت سے دوبارہ زندگی بخشی جائے گی۔ (متی 22:23، 29؛ اعمال 24:15) مُردوں کے زندہ ہونے کی اُمید بڑی حوصلہافزا ہے کیونکہ جب ایسا ہوگا تو اِنسان ایک نئی زمین پر رہیں گے اور اُن کے پاس ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع ہوگا۔—2-پطرس 3:13؛ مکاشفہ 21:3، 4۔
اِنسان کے دوبارہ جنم لینے کے عقیدے اور بائبل کی تعلیم کے بارے میں غلطفہمیاں
غلطفہمی: بائبل میں کہا گیا ہے کہ ایلیاہ نبی نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کے رُوپ میں دوبارہ جنم لیا۔
حقیقت: خدا نے پیشگوئی کی تھی کہ ”مَیں ایلیاؔہ نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا“ اور یسوع مسیح نے کہا کہ یہ پیشگوئی یوحنا بپتسمہ دینے والے پر پوری ہوئی۔ (ملاکی 4:5، 6؛ متی 11:13، 14) لیکن اِس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ایلیاہ نبی نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کے رُوپ میں دوبارہ جنم لیا۔ یوحنا نے خود کہا کہ وہ ایلیاہ نہیں ہیں۔ (یوحنا 1:21) دراصل یوحنا نے بھی ایلیاہ کی طرح لوگوں کو خدا کا یہ پیغام دیا کہ وہ توبہ کریں۔ (1-سلاطین 18:36، 37؛ متی 3:1، 2) اِس کے علاوہ یوحنا نے ”ایلیاہ جیسے جوش اور طاقت“ کا مظاہرہ کِیا۔— لُوقا 1:13-17۔
غلطفہمی: بائبل میں جب اِنسانوں کے ”دوبارہ سے پیدا“ ہونے کی بات کی جاتی ہے تو اِس کا مطلب اِنسان کا دوبارہ جنم لینا ہے۔
حقیقت: بائبل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص مجازی معنوں میں دوبارہ سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا اُس کے جیتے جی ہی ہوتا ہے۔ (یوحنا 1:12، 13) ایک شخص کا دوبارہ سے پیدا ہونا خدا کی ایک نعمت ہے اور اِس کا تعلق اُس شخص کے ماضی کے کاموں سے نہیں ہے جیسے کہ دوبارہ جنم لینے کے عقیدے پر ایمان رکھنے والے لوگ سمجھتے ہیں۔ جن لوگوں کو یہ نعمت ملتی ہے، اُنہیں مستقبل کے حوالے سے ایک خاص اُمید حاصل ہوتی ہے۔—یوحنا 3:3؛ 1-پطرس 1:3، 4۔
a دراصل قدیم بابل میں رہنے والے لوگ یہ مانتے تھے کہ اِنسان کے اندر غیرفانی روح ہوتی ہے اور اِنسان مرنے کے بعد دوبارہ جنم لیتا ہے۔ بعد میں ہندوستانی فلسفیوں نے کرما کے عقیدے کو تشکیل دیا۔ ”بریٹانیکا اِنسائیکلوپیڈیا آف ورلڈ ریلیجنز“ کے صفحہ نمبر 913 پر کرما کے عقیدے کی تشریح یوں کی گئی ہے: ”اِس عقیدے کی بنیاد یہ اصول ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ اِس کا مطلب ہے کہ لوگ اپنی موجودہ زندگی میں جو کام کرتے ہیں، اُن کا اثر اُن کے اگلے جنم پر ہوتا ہے۔“